حسنین جمال
میں دفتر جاتے ہوئے راستے پہ ایک اندھے فقیر کو دیکھتا ہوں۔ شدید گرمیوں کی دوپہر میں بھی اسے روز وہیں کھڑے دیکھ کے گزرتا ہوں۔ سخت سردیوں کی صبح بھی وہ اسی جگہ پایا جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں ضائع ہو چکی ہیں۔ اس کا رنگ وہ ہے جسے ادب والوں کی زبان میں آبنوسی کہا جا سکتا ہے۔ چمکتا ہوا گہرا سانولا رنگ۔
اس کی داڑھی اور سر کے بال سفید ہیں۔ بالکل سفید، اتنے سفید جیسے چاول ہوں۔ اور وہ بال اس کے آبنوسی چہرے پہ ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے رات کو برف باری ہو رہی ہو۔ اس کا یہ کالا رنگ اور سفید بال شاید بدلتے موسموں کی وجہ سے ہیں۔ سردی، گرمی، بہار، خزاں، برسات، آندھی، طوفان ان سب موسموں میں اگر لکڑی بھی ایک جگہ پڑی رہے تو اس پہ اثر پڑتا ہی پڑتا ہے۔ وہ تڑخ جاتی ہے، گل سکتی ہے، اس میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں اور اس کا رنگ بھی بدل جاتا ہے۔
فقیر کو دیکھ کے اسے کوئی بھی آسانی سے بابا جی پکار سکتا ہے۔ معلوم نہیں کیوں اس کی عمر بہت زیادہ نہیں لگتی۔ ایسا لگتا ہے جیسے چالیس پینتالیس سال کی عمر میں ہی اس کے بال چٹے برف ہو گئے ہیں، جیسے میرے بھی شاید ہو جائیں گے۔ اس کی جلد اتنی ویدر بیٹن نہیں ہے۔
بدلتے موسموں کی سختی نے سارا غصہ شاید اس کے رنگ پہ اتارا ہے۔ ہر رنگ ڈس کلرڈ ہو گیا ہے۔ جہاں کبھی وہ گندمی‘ سانولا ہوتا ہو گا‘ اب وہاں آبنوسی ہے۔ جہاں کہیں سیاہ چمکتے ہوئے بال ہوتے ہوں گے‘ تو اب وہاں سفید اور سخت قسم کی داڑھی ہے۔ اس کی آنکھوں میں کالی پتلی کی جگہ سفیدی ہی سفیدی ہے۔ یا پھر اس سفیدی میں کبھی کبھار سرخی مکس ہو جاتی ہے۔
میں نے کبھی اس سے پہلے اتنا شدید اندھا انسان نہیں دیکھا۔ ہاں، مجھے معلوم ہے، اندھا سخت لفظ ہے، لیکن جب ایک آدمی سر سے پاؤں تک صرف ایک ہی لفظ کی تفسیر ہو تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟
تو اس کی آنکھیں دیکھ کے بعض اوقات مجھے ایسے لگنا شروع ہو جاتا ہے جیسے میں کسی یونانی مجسمے کی آنکھیں دیکھ رہا ہوں۔ ان کی بھی پتلیاں نہیں ہوتی تھیں، خالی ڈیلے ہوا کرتے تھے، سفید براق۔ شاید اس فقیر کی عمر اس وجہ سے زیادہ نہ لگتی ہو کہ اس کی بھنویں ابھی کالی ہیں۔ جھریاں نہ ہوں اور بھنویں کالی ہوں تو سفید بال کتنی بزرگی لا سکتے ہیں آخر۔
ایک بات اور بھی عجیب سی ہے۔ اس کی ناک تیکھی ہے، ہونٹ باریک ہیں، چہرہ ہر وقت مسکراتا ہوا لگتا ہے لیکن اس کی پرسنیلٹی مجموعی طور پہ خوبصورت سے زیادہ مسکین لگتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا ہمیں معلوم ہے کہ وہ فقیر ہے تو وہ مظلوم دکھائی دیتا ہے یا اس کے پہنے ہوئے کپڑے اسے ایسا پھٹے حال دکھاتے ہیں یا اس کی سوٹی، جو اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوتی ہے۔
وہ بانس نما چیز، وہ اسے غریب ترین ظاہر کرتی ہے؟ کیا ہے، چکر کیا ہے؟ اس کے ہاتھ صاف ستھرے ہوتے ہیں، ناخن بھی ترشے ہوتے ہیں، اگر وہ گورا ہوتا اور تھوڑے مناسب کپڑوں میں ہوتا اور بھلے ہی اندھا ہوتا تو کیا ایک خاندانی آدمی دکھائی نہ دیتا؟ لیکن اس وقت وہ اندھا فقیر ہے۔
اسے دیکھ کے مجھے یہ لگتا ہے کہ فقیر بننا اس دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ آپ نوکری کرتے ہیں تو آپ غلام ہوتے ہیں۔ آپ معاہدہ کرتے ہیں کہ نو سے پانچ یا واٹ ایور فلاں فلاں ٹائم کے دوران فدوی پابند ہے کہ ادارہ ہٰذا کے احکامات بجا لائے گا۔ اس کے باوجود آپ کی انا آسمانوں پہ ہوتی ہے۔
باس نے یہ کہہ دیا، فلاں کولیگ نے ایسے کیوں بات کی، میرے کپڑے استری نہیں ہیں، جوتے چمک نہیں رہے، سو طرح کی ٹینشنیں آپ کو ہوتی ہیں۔ واضح رہے کہ استری اور جوتا پالش اسی لیے کیا جاتا ہے کہ وہ معاشرے میں تہذیب یافتہ دِکھنے کا لازمی حصہ ہے۔ تو اس طرح صاف کپڑوں میں باہر نکلنے کی عادت ہو جاتی ہے جو ہمیشہ قائم رہتی ہے۔
یہ عادت انا کو بوسٹ اپ کرتی رہتی ہے۔ تو عام طور پہ فقیر بننے کی پہلی شرط میلے کپڑے پہننا ہے تاکہ آپ شکل سے فقیر لگیں۔ اس کے بعد ہر کسی کو سلام کرنا ہے تاکہ آپ کو بھیک ملے۔ ہر موسم میں اپنے اڈے پہ کھڑا ہونا ہے تاکہ آپ کے ریگولر گاہک بنیں۔ کسی ایمرجنسی میں بھی اڈہ نہیں چھوڑنا تاکہ دوسرا کوئی قبضہ نہ کر لے۔
معاشرے کے ہر طبقے والے آدمی کی جھڑکیاں کھانی ہیں، سخت باتیں سننی ہیں کیونکہ بہرحال آپ فقیر ہیں اور آپ کا ہاتھ ہر ایک کے آگے پھیلا ہوا ہے۔ پولیس والوں کے دھکے کھانے ہیں۔ کوئی گاڑی اگر سڑک کنارے کھڑے ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ ٹکرا جائے، یا سگنل پہ بھیک مانگنے کی وجہ سے شیشہ آپ کی پسلیوں میں گھس جائے تو وہ بھی آپ کا ہی قصور ہے کیونکہ آپ بہرحال فقیر ہیں۔
آپ کو گدھے ریڑھی والا بھی طعنے مار سکتا ہے، آپ کی عورتوں پہ کوئی بھی نہ صرف بری نظر رکھ سکتا ہے بلکہ ان کو چھونے کی کوشش بھی کر سکتا ہے، آپ کے ساتھ مانگنے والے بچوں کو برا بھلا کہا جا سکتا ہے‘ مطلب سکائے از دی لمٹ۔ تو کیا بھیک مانگنا آسان کام ہے؟ یا وہ جو ہم دس بیس روپے دے کے چلے جاتے ہیں وہ کوئی احسان کرتے ہیں ان پہ؟
یہ میرے والا بابا تو اندھا ہے، بات سمجھ میں آ گئی، اسے کوئی آنٹی گاڑی میں سے منہ نکال کر یہ نہیں کہے گی کہ ہٹے کٹے ہو تم کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟ لیکن وہ جو ہٹے کٹے مرد ہیں یا جوان جہان عورتیں ہیں، اگر وہ بھیک مانگتے ہیں تو کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ کیوں مانگتے ہیں؟ ایسی کیا مجبوری ہوتی ہے جو ان کی انا، ان کا ظاہری لباس، ان کی صفائی ستھرائی، عورتوں اور بچوں کی عزت، ہر چیز وہ داؤ پہ لگا دیتے ہیں؟
دیکھیے بات اتنی ممی ڈیڈی برگر بچوں والی سادی نہیں ہے کہ آپ منہ اٹھائیں اور کہہ دیں کہ یہ لکھنے والا پاگل ہو گیا ہے، وہ لوگ جرائم پیشہ ہوتے ہیں، نشہ کرتے ہیں تو بس وہ لوگ مانگتے بھی ہیں۔ ناں‘ ایسا نہیں ہے۔
کوئی شدید ترین مجبوری اگر نہ ہو تو ان میں سے کئی لوگ شاید ساری عمر اس دھندے کی طرف نہ آئیں۔ ایک دیہاڑی دار چونا کرنے والا مزدور جب گاہک نہ ملنے پہ چوک سے شام کو خالی ہاتھ جاتا ہے تو اس وقت پتہ چلتا ہے کہ انا کس بھاؤ بکتی ہے؟ اپنا پیٹ گیا بھاڑ میں بابو، بچوں کی بھوک یہ سب کچھ کرواتی ہے۔
ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان میں یقیناً پیشہ ور بہت سے ہوتے ہوں گے‘ لیکن اگر ایک بھی مجبور انسان ہے جسے نوکری نہیں ملی، گردے فیل ہو گئے، ذہنی مریض ہے یا کسی بھی وجہ سے حالات نے اسے سڑک پہ کھڑا کر دیا ہے اور آپ اس کو ہٹا کٹا دیکھ کر بھیک دئیے بغیر گزر گئے ہیں تو جان لیں کہ آپ اس مایوس انسان کی آخری امید بھی ختم کرنے کا سبب بنے ہیں۔
وہ آدمی جو بے چارہ انا تک کو لوگوں کے پیروں پہ رول کے مانگنے کھڑا ہوا ہے تاکہ شام کو بچوں کے بھوکے پیٹ اور اداس نظریں نہ دیکھنا پڑیں۔
فقیر آپ کے دس بیس پچاس سو روپے سے امیر نہیں ہو جائے گا، نہ آپ غریب ہوں گے۔ یہ تو یار بس ایک سودا ہے، آپ اچھا محسوس کریں گے کہ آپ نے کسی انسان کی مدد کر دی، وہ انسان آپ کو دعا دے گا کہ آپ کے پیسے وقتی طور پہ اس کے رزق میں اضافہ کر دیں گے۔
میری پوزیشن درخواست والی ہی ہے، تو بس عرض یہ ہے کہ اے صاحبِ دل نواز، روپے پیسے دیتے وقت یہ مت دیکھیں کہ بھکاری شکل سے نشئی لگتا ہے، جوان جہان ہے، ہٹا کٹا ہے یا لمبا چوڑا ہے بلکہ جو سامنے آئے اسے بغیر جج کیے پیسے دیں اور اپنا راستہ پکڑیں۔
آپ کو، مجھ کو، ہمیں اپنی انا بہت پیاری ہوتی ہے۔ جو انا کو تج کے باہر مانگنے نکل آیا اسے آپ نے کیا سبق دینا ہے؟ آپ سکھا ہی کیا سکتے ہیں؟ ایک دن خالی جیب گھوم کے دیکھ لیں یا دو راتیں بھوکے پیٹ خدا نہ کرے سونا پڑے تو تیسرے دن قسم اللہ پاک کی ہر فقیر پہ آپ کو پیار آ رہا ہو گا۔
اے میرے اندھے فقیر، خدا تم پہ اس جہان کی سب روشنیاں حلال کرے، تمہارے بچے سکون کی روٹی کھائیں اور تمہاری ہڈیوں کو آرام نصیب ہو۔ کاش یہ نیا سال تمہارے لیے کوئی اچھی خبر لائے۔