آج کل فیس بک پر ایک ڈیبیٹ چل رہی ہے کہ آخر لڑکیاں نیوڈز کیوں بھیجتی ہیں اور اس کی وجہ سے بلیک میل کیوں ہوتی ہیں۔ دو حصے ہیں اس سوال کے،
لڑکیاں نیوڈز کیوں بھیجتی ہیں؟
پیار، محبت، اس رشتے میں بندھنے کے بعد ہونے والا وہ ایموشنل ٹارچر جو ملتا ہے، یہ ڈر کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا، یا تم مجھ سے پیار نہیں کرتی ہو جیسی باتیں لڑکیوں کو اس بات پر مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ نیوڈز بھیجیں۔
اور اگر یہ باتیں مجبور نہ بھی کرتی ہوں تو کانسینٹ بہت ضروری ہے۔ اگر لڑکیاں اپنی کانسینٹ سے نیوڈز بھیج رہی ہیں تو وہ کانسینٹ اس مرد کی حد تک ہوتا ہے، یا اس شخص کی حد تک ہوتا ہے جس کو وہ تصاویر بھیجی جا رہی ہیں۔ وہ تصاویر بھیجنے کا مقصد ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ رشتہ ختم ہو جائے تو پھر بعد میں بلیک میل کیا جا سکے یا مزید کسی جگہ پہ پبلش کیا جا سکے۔
ویسے بھی سائبر لا کے مطابق اگر کسی کی بھی ایسی کوئی تصویر استعمال کی جائیں سوشل میڈیا پہ یا اس کو بلیک میل کیا جائے ان تصاویر کے ذریعے تو یہ قابل گرفت جرم ہے۔
اب اس سوال کے دوسرے حصے پہ آتے ہیں کہ آخر لڑکیاں اپنے گھر والوں کو کیوں نہیں بتا پاتی ہیں اور بلیک میل کیوں ہوتی ہیں۔
جس پدرشاہی معاشرے کو ہم حصہ ہیں وہاں پہ خواتین کے لئے ایسے پیار محبت کے رشتوں میں بندھنا منظور نہیں ہوتا ہے۔ ان کے گھر والے یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں، یا ان کی بہنیں یا ان کی بیوی یا ان سے منسلک کوئی بھی رشتہ جو کسی خاتون سے تعلق رکھتا ہو، وہ ایسے کسی رشتے میں جا سکتی ہے یا ایسے کسی ریلیشن شپ میں بندھ سکتی ہے۔ جب وہ یہ بات مانتے ہی نہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے تو پھر ایسے رشتوں سے بندھا استحصال بھی انہیں نامنظور ہے۔ ایسے میں خواتین کے لئے یہ بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو بتائیں کہ کوئی شخص انہیں بلیک میل کر رہا ہے۔
یہاں پہ مجرم وہ ہے جو بلیک میل کر رہا ہے۔ مجرم وہ نہیں ہے جس نے یہ چیزیں بھیجی ہیں۔ تو وکٹم بلیمنگ، یعنی متاثرہ فرد کو مورد الزام کرنا بند کیجئے۔ وکٹم شیمنگ ختم کیجئے۔
اور جو لوگ اس معاشرے کے ماتھے پہ کالا دھبہ ہیں۔ جو خواتین کو پیار محبت کے جال میں پھنسانے کے بعد ان کو بلیک میل کرتے ہیں، ان پر بات کرنا شروع کیجئے۔
جرم پہ بات کیجئے، مجرم پر بات کیجئے، اس پر بات مت کیجئے جو پہلے ہی مظلوم ہے۔