بھارت میں اس وقت دو معاملات پر ہنگامہ برپا ہے۔ ایک معاملہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے تیارکیے گئے ایک بل کے حوالے سے ہے جو بظاہر ہمسایہ ملکوں کی مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے انسانی ہمدردی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے لوک سبھا میں پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے معاملہ میں ہنگامہ آرائی اور ناراضگی کا باعث بھارت کا دورہ کرنے والی نارویجئن وزیر اعظم ارنا سولبرگ کا ایک بیان بنا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران ارنا سولبرگ نے پاکستان اور بھارت سے وہی بات کہی تھی جو کوئی بھی ہوشمند کسی بھی دوسرے سے کہنے کی کوشش کرے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اب دونوں ملکوں کو وجود میں آئے ستر برس سے زیادہ مدت ہو چکی ہے۔ انہیں اب مل بیٹھ کر باہمی اختلافی امور کو طے کرلینا چاہیے
این ڈی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اوسلو کے روایتی پرامن کردارکے پس منظر میں سولبرگ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت سے متعلق سوال کیا گیا تھا۔ ارنا سولبرگ کا کہنا تھا کہ ’اگر مصالحت میں دونوں ممالک کی دلچسپی ہے تو ہم وہ طریقہ کار استعمال کرنے کی کوشش کریں گے جو ہم جانتے ہیں۔ ہم مختلف ممالک میں کام کررہے ہیں۔ ہماری بنیادی سوچ یہی ہے کہ فریقین کو مل بیٹھنے اور مذاکرات کی ضرورت ہے‘ ۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت سے متعلق سوال پر ناروے کی وزیراعظم نے کہا کہ ’میرا ماننا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو زیادہ بات چیت کرنی چاہیے۔
پاکستان اور بھارت کو فوج کے اخراجات میں کمی لانی چاہیے کیونکہ دیگر شعبے جیسے تعلیم اور صحت میں ترقی کرنے کے لئے مزید رقم کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے دونوں ممالک کو کشیدگی میں کمی لانے کی کوشش کرنا ہوگی‘ ۔ ناروے کی وزیراعظم نے کہا کہ ’1947 سے اب تک ایک طویل عرصہ ہوگیا۔ اب شاید دونوں ممالک کے درمیان ایک بہتر نقطہ نظر کی تلاش کا وقت آگیا ہے۔ لیکن یہ دونوں ممالک پر منحصر ہے۔ یہ ناروے کا مشن نہیں‘ ۔
ارنا سولبرگ سے ان سوالات کا پس منظر گزشتہ برس نومبر میں سابق نارویجئن وزیر اعظم شیل ماگنے بوندے وک کا مقبوضہ کشمیر کا دورہ اور کشمیری قیادت سے بات چیت تھی۔ اس موقع پر بوندے وک نے آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان کی دعوت پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ بھی کیا تھا۔ تاہم ارنا سولبرگ کا کہنا تھا کہ یہ ناروے کے سابق وزیراعظم کا سرکاری دورہ نہیں تھا۔ ’انہیں اس دورے کی دعوت دی گئی تھی اور وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ مدد کرنے کے کچھ امکانات ہیں یا نہیں۔ لیکن اس کا کوئی سرکاری مقصد نہیں تھا‘ ۔
انٹرویو کے دوران نارویجئن وزیر اعظم کی فطری بات چیت اور مسائل حل کرنے کے بارے میں متوازن خواہش کے اظہار کو اہمیت اور وقعت دینے کی بجائے بھارتی میڈیا میں یہ سرخیاں شائع کی گئیں کہ ناروے نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیش کش کی ہے۔ ان خبروں پر ہنگامہ رفع کرنے کے لئے نئی دہلی میں نارویجئن سفیر کو وضاحت کرنا پڑی کہ ’وزیر اعظم سولبرگ سے نہ کسی نے ثالثی کے لئے کہا ہے اور نہ انہوں نے ایسی کوئی پیش کش کی ہے‘ ۔
دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ناروے کا بھی یہی مؤقف رہا ہے کہ کسی بھی مصالحتی عمل میں ثالث کا کردار ادا کرنے کے لئے، فریقین کا متفق ہونا ضروری ہے۔ اگرچہ پاکستان نے متعدد بار عالمی ثالثی کی کوشش کی ہے لیکن بھارت نے اس بارے میں ہمیشہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور اس قسم کی ہر کوشش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کیا ہے کہ یہ دو ملکوں کا باہمی معاملہ ہے۔ اسے وہ آپس میں ہی حل کرسکتے ہیں۔ ارنا سولبرگ نے بھی یہی بات کی ہے۔ ناروے جیسے چھوٹے لیکن عالمی سفارت کاری میں اہم اور قابل احترام ملک کی وزیر اعظم کے انٹرویو کو اگر بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کے پس منظر میں دیکھا جائے تو بھارتی میڈیا اور سیاسی انتہاپسندوں کی خفت اور الجھن سمجھی جاسکتی ہے۔
بھارتی دارالحکومت میں نارویجئن وزیر اعظم کی اصولی باتوں پر چھائی بدحواسی کا پرتو اس بل میں بھی دیکھاجاسکتا ہے جسے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے لوک سبھا میں منظوری کے لئے پیش کیا ہے اور جس پر اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ مسلمانوں نے بھی سخت احتجاج کیا ہے۔ اگرچہ بی جے پی کے بعض حلقے بھی اس بل کی مخالفت کررہے ہیں لیکن اس کی وجہ بنیادی طور پر علاقائی سیاسی مشکلات اور ضرورتیں ہیں۔ اس بل کے ذریعے حکومت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی مذہبی اقلیتوں کو بھارت میں پناہ دینے اور ملک کا شہری بنانے کے عمل کو سہل بنانا چاہتی ہے۔
قائمہ کمیٹی میں اس بل پر بحث کے دوران اپوزیشن کی طرف سے واضح کیاگیا تھا کہ بل میں ہندو، سکھ، جین، پارسی، بودھ اور مسیحی عقیدوں کا ذکر کیا گیا۔ اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس لئے یہ بل مذہبی تعصب و تفریق کا سبب بنے گا۔ لیکن بی جے پی نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔ حکمران جماعت نے کانگرس پارٹی کی طرف سے سری لنکا اور نیپال کو بھی اس فہرست میں شامل کرنے کا مشورہ ماننے سے بھی انکار کردیا تھا۔ کیوں کہ اس قسم کی قانون سازی دراصل پاکستان کے خلاف سیاسی و سفارتی مورچہ بندی کا حصہ ہے۔
اب اسے لوک سبھا میں پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ ’بنگلہ دیش اور افغانستان میں اقلیتوں کے لئے حالات پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہوئے ہیں لیکن پاکستان میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کو مذہبی تفریق اور مظالم کا سامنا ہے۔ پاکستان میں ریاست اور معاشرے کے مختلف ادارے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ منظم طریقے سے تفریق برتتے ہیں۔ انہیں مذہبی آزادی نہیں دی جاتی اور انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے‘ ۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملک کی حکومت جب مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا تہیہ کرتی ہے تو اس سے بنیادی جمہوری اور انسانی اقدار پامال ہوتی ہیں۔ لیکن سیاسی مفاد کے جنون میں مبتلا لیڈروں کو یہ کمزوری دکھائی نہیں دیتی۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ دنیا ان کے جھوٹ کو سچ مان لے گی اور ان کی طرف سے انسانیت کے کھوکھلے دعوؤں کو قبول کرلیا جائے گا۔ لیکن بھارت کی انتہا پسند حکومت کو داخلی طور پر بھی اس مقصد کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اپوزیشن کانگرس پارٹی نے اس بل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ بی جے پی کی حکومت اس طرح کے ہتھکنڈوں سے شہریوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر پھوٹ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین کے نمائیندے نے کہا ہے کہ ’اس بل سے بی جے پی کی مسلمانوں سے نفرت کی بو آتی ہے۔ بی جے پی بھارت کو اسرائیل بنانے کی کوشش کررہی ہے‘ ۔ بی جے پی البتہ اس قسم کی سیاسی ترش کلامی سے بدحواس نہیں ہوتی۔ نریندر مودی تین ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں ہر قیمت پر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے پاکستان دشمنی اور ہندوتوا نظریات کا استعمال سیاسی ایجنڈے میں سر فہرست ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں ترکی کے دورہ کے دوران مقامی ٹیلی ویژن چینل ٹی آر ٹی ورلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا کہ بھارت انتخابات کی وجہ سے پاکستان کی طرف سے مصالحت اور مذاکرات کی ہر کوشش کو مسترد کررہا ہے۔ حالانکہ دو ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کا تفصیل سے ذکر کرنے والے پاکستانی وزیر اعظم سے جب ترک صحافی نے چین کے صوبہ سنکیانگ میں ایغور مسلمان آبادی پر ہونے والے مظالم کے بارے میں سوال کیا تو سادہ طبیعت اور صاف گو عمران خان نے اس بارے میں لاعلمی ظاہر کی۔
چین میں مبینہ ریاستی جبر کا شکار ایغور مسلمانوں کے بارے میں سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ’انہیں چین میں ایغور مسلمانوں کے ساتھکیے جانے والے سلوک کے بارے میں تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ لیکن وہ یہ ضرور کہیں گے کہ چین نے پاکستان کا مشکل وقت میں بھرپور ساتھ دیا ہے۔ انہوں نے مختلف شعبوں میں ہماری مدد کی ہے۔ البتہ ان کے کام کرنے کا طریقہ ایسا ہے کہ میں آپ کو ان کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کر سکتا کیونکہ وہ ان کو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں‘ ۔
پاکستان کا وزیر اعظم جب کشمیری مسلمانوں پر مظالم کوسیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کرتے ہوئے، چین میں ریاستی تشدد اور دہشت کا شکار ایغور آبادی کی حالت زار سے لاعلمی ظاہر کرتا ہے اور اسی سانس میں چین کی توصیف میں قلابے ملانا ضروری سمجھتا ہے تو اس کی مجبوری اس کے لفظوں اور چہرے سے عیاں ہوتی ہے۔ شاہراہ ریشم کے دوسرے کنارے پر موجود چین کے سنکیانگ صوبے کی مسلمان ایغور آبادی پر ہونے والے مظالم پر مسلمان ملکوں کے سوا پوری دنیا سراپا احتجاج ہے۔
نومبر میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے اجلاس میں چین کے نمائندے کو اس بارے میں جواب دینے میں شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سنکیانگ میں دس لاکھ کے لگ بھگ ایغور مسلمانوں کو تربیتی کیمپوں میں رکھا گیا ہے جنہیں اصلاحی مراکز کا نام دیاگیا ہے۔ وہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ زبردستی اپنے عقائد کے خلاف طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ متعدد پاکستانی شہریوں کی ایغور بیویاں اور بچے بھی ایسے کیمپوں میں اسیر ہیں اور ان کے لواحقین پاکستان میں ان کی بازیابی کے لئے احتجاج بھی کرتے رہتے ہیں۔
عمران خان کو ایغور مسلمان آبادی کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ یہ سوال ان سے ایک ترک صحافی نے کیا تھا۔ ایغور نسلی، لسانی اور ثقافتی طور سے ترک ہیں۔ وہ اپنے اسلامی عقیدے کے علاوہ ترک شناخت کے لئے بھی جد و جہد کررہے ہیں اور ان کی نمائیندہ تنظیمیں عالمی سطح پر اس حوالے سے سوال اٹھاتی رہتی ہیں۔ گزشتہ برس کے دوران ایغور باشندوں کو کثیر تعداد میں نام نہاد اصلاحی مراکز میں رکھ کر ظلم کا نشانہ بنانے کے معاملہ پر دنیا میں ہر سطح پر آواز بلند کی گئی ہے۔ تاہم پاکستانی وزیر اعظم کو نہ اس احتجاج کے بارے میں خبر ہے اور نہ یہ پتہ ہے کہ ان کا ممدوح ملک اپنے ہی ملک کی ایک اقلیت کے خلاف دہشت گردی کا مرتکب ہورہا ہے۔
عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی ہالینڈ میں گیرٹ وائلڈرز کی طرف سے رسول پاکﷺ کے کارٹون بنانے کے اعلان پر سیاسی بیان بازی کی تھی۔ بعد میں نیدر لینڈ کے اس انتہاپسند لیڈر نے کسی وجہ سے یہ ارادہ ترک کردیا لیکن عمران خان سمیت تحریک انصاف کی پوری قیادت اب تک اس معاملہ کو اپنی سفارتی کامیابی قرار دیتی ہے۔ سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو رہا کردیا لیکن وہ ابھی تک مجبور حکومت کی بے عملی کے سبب نہ آزادانہ زندگی بسر کرسکتی ہے اور نہ ہی ملک سے باہر جاسکتی ہے۔
کیوں کہ اس طرح عمران خان اور تحریک انصاف کو سیاسی طور سے مشکل صورت حال کا سامنا ہوگا۔ بنگلہ دیش میں پانچ لاکھ بہاری خود کو پاکستانی قرار دے کر سیاسی امتیازی سلوک اور سماجی تعصب کا سامنا کررہے ہیں۔ لیکن 47 برس میں پاکستان انہیں واپس لاکر آباد کرنے کی کوشش نہیں کرسکا۔ میانمار کے دس لاکھ روہنگیا مسلمان شدید سرکاری تشدد اور نسل کشی کا سامنا کررہے ہیں لیکن اس وجہ سے برما کے ساتھ پاکستان کے عسکری تعاون اور تجارت پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ اس لئے کوئی عجیب نہیں کہ پاکستان کا وزیر اعظم چین کے ایک کروڑ ایغور مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں ’لاعلم‘ ہے۔
بھارت ہو کہ پاکستان، ان کے لیڈر عوام کی ضرورتیں پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور مذہب کا چورن بیچ کر خود کو سرفراز کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جب انہی لیڈروں کو دیگر مفادات کے لئے مذہبی جذبات کو تہ کرکے جیب میں رکھنا پڑتا ہے تو ان کی یادداشت جواب دینے لگتی ہے یا ہمسایہ ملکوں کی غیر مسلمان اقلیتیں یاد آنے لگتی ہیں۔