بلوچستان کے علاقے لورالائی میں ارمان لونی کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کی کوشش کے دوران ہلاکت کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ ایک بار پھر خبروں میں ہے، جسے ایک سال پہلے اسی طرح کے ایک واقعے کے بعد عوام میں غیر معمولی پذیرائی ملی تھی۔ تقریباً ایک برس قبل پولیس کے ہاتھوں قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے کراچی میں قتل کے بعد منظور پشتین کی زیرقیادت قبائلی علاقوں تک محدود اس تحریک میں جیسے ایک نئی جان ڈال دی تھی۔
اس تحریک کے حامیوں میں بڑی تعداد ان نوجوانوں کی ہے جن کے رشتہ دار گذشتہ چند سالوں کے دوران جبری گمشدگیوں کا شکار ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی وجہ سے کافی گھروں میں خوشیاں لوٹ آئی ہیں۔
’کئی لاپتہ لوگ اپنے گھروں کو واپس آگئے ہیں، ہمیں بھی امید ہے کہ ہمارا بھائی واپس لوٹ آئے گا۔‘ یہ الفاظ ہیں دانش محسود کے جو حال ہی میں سہراب گوٹھ میں ہونے والے پی ٹی ایم کے دھرنے میں شریک تھے۔
دانش محسود کے کزن اسماعیل 2010 میں کراچی کے جنجال گوٹھ سے لاپتہ ہوئے۔ دانش کا کہنا ہے کہ اسماعیل سکول میں پڑھاتے تھے اور وزیرستان میں فوجی آپریشن کے باعث انھیں کراچی منتقل ہونا پڑا۔
دانش پشتون تحفظ موومنٹ کے ہر دھرنے میں شریک ہوتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد دھرنا کیا گیا تو وہ اسماعیل کی تصویر لے کر وہاں پہنچ گئے۔ اس کے بعد ڈیرہ اساعیل خان اور اسلام آباد کے دھرنوں میں بھی شریک ہوئے۔
’پشتون تحفظ موومنٹ اور منظور پشتین ہمارے لیے امید کی کرن ہیں کہ ہمارے پیارے گھر کو لوٹ آئیں گے۔انھوں نے گمشدگیوں کے مسئلے کو ایک نئے انداز اور جوش سے اٹھایا ہے۔‘
پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد سہراب گوٹھ میں محسود قبائل کی جانب سے دھرنا دیا گیا تھا جہاں منظور پشتین نے پہلی بار خطاب کیا۔ اس کے بعد ان کی تنظیم محسود تحفظ موومنٹ نے پشتون تحفظ موومنٹ کی شکل اختیار کرلی۔
گذشتہ ایک سال میں وہ تین چار مرتبہ کراچی آ چکے ہیں، لیکن پھر حکومت سندھ نے ان کے جلسوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔
پشتون تحفظ موومنٹ کا ان دنوں اپنے ایک کارکن عالم زیب کی گرفتاری کے خلاف دہرنا جاری ہے۔ اس جلسے میں گیت، سنگیت اور جذبات تینوں ہی نظر آتے ہیں، جو نوجوان کے لیے باعث کشش بنتے ہیں۔
گذشتہ ایک سال میں متعدد بار سہراب گوٹھ کے اس علاقے میں جلسے کیے گئے ہیں۔ یہاں کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا یہ تاثر تھا کہ ادھر طالبان کا اثر ہے۔
ان جلسوں کے شرکا زیادہ تر لاپتہ افراد کے لواحقین یا پھر وزیرستان کے وہ رہائشی ہیں جو کسی نہ کسی طرح متاثر ہوئے۔
ایک نوجوان نے بتایا کہ گذشتہ ایک سال میں انھیں دو بار پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار حراست میں لے چکے ہیں اور بعد میں چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کی وجہ ان کی پی ٹی ایم سے ہمدردی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ’پشتون تحفظ موومنٹ کو وہ اپنے اندر کی آواز سمجھتے ہیں‘۔
لیکن ان کے مسائل کراچی آ کر شروع نہیں ہوئے۔ ایک شخص نے بتایا کہ جب وزیرستان میں آپریشن جاری تھا تو اس وقت وہ ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ ’ایک بار راستے میں مجھے روک دیا گیا اور سکول یونیفارم میں ہونے کے باوجود میری تلاشی لی گئی۔‘
سوات اور وزیرستان میں آپریشن کے بعد بڑی تعداد میں آئی ڈی پیز نے کراچی کا رخ کیا تھا، جہاں یہ لوگ محنت مزدوری سے وابستہ ہوگئے۔ حکام کا کہنا ہے کہ آئی ڈی پیز کے ساتھ طالبان بھی یہاں پہنچ گئے، جنھوں نے یہاں پولیس، پولیو ورکرز اور عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت کو نشانہ بنایا۔ یہی وجہ تھی کہ سہراب گوٹھ کی آبادی کو آپریشن کا سامنا کرنا پڑا۔ ’کراچی ان ٹرموئل‘ کے مصنف، صحافی اور تجزیہ نگار ضیاالرحمان کا کہنا ہے کہ 2013 میں جب آپریشن شروع ہوا تو عسکریت پسند کمزور ہوئے، کافی گرفتار یا مارے گئے یا پھر فرار ہو گئے۔
لیکن اس کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خاص طور پر پولیس کی جانب سے عام پشتونوں اور خاص طور پر محسود قبائلیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی اور یہ شکایات بڑھ گئیں کہ انھیں پیسے لے کر چھوڑ دیا جاتا یا پھر انھیں جعلی مقابلوں میں مار دیا جاتا۔ ’جب نقیب اللہ محسود کا واقعہ پیش آیا تو صورتحال نے ایک نیا موڑ اختیار کرلیا، کیونکہ نقیب سوشل میڈیا پر بہت مقبول تھے اور ان کی خاطر چلائی گئی مہم نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی۔‘
کراچی میں پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیاں زیادہ تر سہراب گوٹھ یا اس سے ملحقہ علاقوں تک محدود ہیں۔ ضیاالرحمان کے مطابق سہراب گوٹھ، شاہ لطیف ٹاؤن، لانڈھی اور منگھو پیر میں محسود کمیونٹی آباد ہے اور پشتون تحفظ موومنٹ ان ہی علاقوں میں زیادہ سرگرم اور منظم ہے۔ ’طالبان سے بھی یہی علاقے متاثر ہوئے۔ بعد میں یہاں سے ہی لوگوں کو بھی اٹھایا گیا۔ اس کے برعکس شہر کے وسطی علاقوں سلطان آباد، کیماڑی اور پٹیل پاڑہ وغیرہ میں ہی پی ٹی ایم کی باز گشت سنائی نہیں دیتی۔‘
کراچی میں پشتون تحفظ موومنٹ کو بائیں بازو کی تنظیموں اور نوجوانوں کی حمایت حاصل رہی، جبکہ اس کے دھرنوں میں پشتون کے علاوہ بلوچ، سندھی اوردیگر قومیتوں کے لاپتہ افراد کے لواحقین بھی شرکت کرتے ہیں۔ اس سے قبل ان لوگوں کے پاس کویی ایسا مشترکہ پلیٹ فارم نہیں تھا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سابق رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ پشتون تحفط موومنٹ بظاہر تو لسانی تنظیم نظر آتی ہے لیکن وہ دراصل ایسی نہیں۔ ’وہ انسانی مسائل اٹھاتے ہیں، اس لیے کراچی میں بھی ان کا استقبال ہوا۔ لاہور اور کوئٹہ میں بھی ان کا خیرمقدم کیا گیا کیونکہ جو مسائل وہ اٹھا رہے ہیں وہ اس ملک کے سلگتے ہوئے مسائل ہیں اور یہاں کے پسے ہوئے عوام کے مسائل ہیں۔‘ ’فاٹا ایک کٹا ہوا علاقہ تھا، اس کو ’نو گو ایریا‘ بنا دیا گیا تھا۔ پی ٹی ایم اسے سیاسی نقشے پر لے آئے ہیں اور وہ مسائل جن پر بات نہیں ہوتی تھی، انھوں نے اس کو مکالمے میں شامل کرلیا ہے۔‘