داعش کی جہادی دلہن شمیمہ احمد حاملہ ہیں اور لندن واپس جانا چاہتی ہیں


داعش میں شمولیت کے لیے 2015 میں مشرقی لندن سے جانے والی تین طالبات میں سے ایک کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے اقدام پر افسوس نہیں لیکن وہ واپس برطانیہ آنا چاہتی ہیں۔ برطانوی اخبار دی ٹائمز سے بات کرتے ہوئے 19 سالہ شمیمہ بیگم نے کوڑے دانوں میں ’کٹے ہوئے سر‘ دیکھنے کی بات کی لیکن کہا کہ اس سے انھیں ’ڈر نہیں لگا‘۔

شام میں واقع ایک پناہ گزین کیمپ سے بات کرتے ہوئے شمیمہ کا کہنا تھا کہ وہ نو ماہ کی حاملہ ہیں اور بچہ پیدا کرنے کے لیے واپس گھر آنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اِن کے دو اور بچے بھی پیدا ہوئے تھے لیکن دونوں وفات پا گئے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے ساتھ جانے والی دیگر دو لڑکیوں میں سے ایک بمباری میں ہلاک ہو گئی تھیں جبکہ تیسری لڑکی کا کچھ پتا نہیں۔

بیتھنل گرین اکیڈمی میں پڑھنے والی شمیمہ اور اُس کی ساتھی عامرہ عباسی 15 اور ان کی ساتھی خدیجہ سلطانہ 16 سال کی تھیں جب انھوں نے فروری 2015 میں برطانیہ چھوڑا۔ اپنے والدین کو یہ بتا کر کہ وہ کچھ دیر باہر جا رہی ہیں، انھوں نے گیٹ وک ایئر پورٹ سے ترکی کا سفر کیا اور بعد میں سرحد پار کر کے شام چلی گئیں۔

شمیمہ نے دی ٹائمز کو بتایا کہ رقہ پہنچنے کے بعد وہ ایک گھر میں ٹھہریں جہاں اور بھی نئی ’جہادی دلھنیں‘ موجود تھیں۔ شمیمہ نے کہا ’میں نے 20 سے 25 سال کے انگریزی بولنے والے کسی جہادی سے شادی کرنے کے لیے درخواست دی۔‘ 10 دن بعد انھوں نے ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ آدمی سے شادی کی جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ تب سے شمیمہ احمد اس کے ساتھ ہی قیام پذیر تھیں اور دونوں مشرقی شام میں دولتِ اسلامیہ کے آخری ٹھکانے باغوز سے دو ہفتے قبل ہی فرار ہوئے ہیں۔

اِن کے شوہر نے ایک شامی جنگجو گروہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اب شمیمہ 39 ہزار افراد کے ساتھ شمالی شام کے ایک پناہ گزین کیمپ میں ہیں۔ محترمہ شمیمہ احمد کا کہنا ہے کہ داعش کے ’جبر‘ سے انھیں ’دھچکا‘ ضرور لگا تھا اور انھیں لگنے لگا تھا کہ یہ ’خلافت‘ ختم ہونے کو ہے۔

2015: شمیمہ احمد اپنی دو ساتھیوں کے ہمراہ جہادی محبت کے سفر پر روانہ ہوتے ہوئے