جس دن ہم عورتوں کی غیرت جاگ گئی؟

زبیدہ بروانی

بچپن میں ہم کہانیاں سنا کرتے تھے کہ ایک گھنا جنگل ہوا کرتا تھا جس میں تمام جانور پُرامن طریقے سی زندگی گذارتے تھے! پھر اچانک اٌس جنگل میں درندے گٌھس آتے ہیں۔ پھر اس جنگل کا پٌرامن ماحول سبوتاژ ہوجاتا ہے، ساتھ یہ بھی سنا تھا کہ اس جنگل کا کوئی قانون بھی ہوا کرتا تھا۔ لیکن سندھ دھرتی کے اندر تو انوکھا قانون ہے۔ ضلع خیرپور سے تعلق رکھنی والی ایک 13 سال کی نہتی بچی رمشا اغوا ہو جاتی اور پورے 5 دن کے بعد واپس گھر پہنچتی ہے تو دوسرے دن اس علاقے کا ایک بدمعاش ذوالفقار وسان نامی ایک غنڈہ گھر میں گھس کراٌس کے گھر والوں کے سامنے 9 گولیاں رمشا کے سینے میں اٌتار کر قتل کر دیتا ہے اور الزام یہ ہے کہ رمشا اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی تھی۔

ذوالفقار وسان کی اس لڑکی کے ساتھ کوئی رشتے داری بھی نہیں تھی۔ صرف ایک رشتا تھا کہ رمشا کے نام کے ساتھ وسان برادری کا نام ضرور لگا ہوا تھا لہذا اس کے پاس لائسنس ہے کہ اس کو کاری قرار دے کر کے قتل کر دے۔ اور اٌس کو جائز بھی قرار دے۔ بات بھی صحیح ہے۔ کئی برسوں تک ریاست بھی اس کو غیرت کے نام پر جائز قتل قرار دیتی آئی تھی۔ آخر یہ غیرت نامی بلا ہے کیا؟ کسی کے گھر کے سامنے کسی پتھر سے ٹکرا کر گر پڑو تو غیرت جاگ پڑی، چلو مار دو اس گھر کی عورت کو، بھائی سے جھگڑا ہوا چلو اٌس کی بہن کو کاری کرو اور مار دو! وراثت میں حصہ نہیں دینا، اس کی پسند کی شادی نہیں کروانی، چلو کاری کر دو۔

آخر یہ غیرت نامی بلا عورتوں کی ہی گردنیں کیوں ڈھونڈھتی ہے۔ عورت کی گردن کبھی کلہاڑی کی دھار پر کبھی گولی کی وار پر۔ پھر بالآخر یہ غیرت نام کا جن مردوں پر ہی کیوں چڑھتا ہے اور تمہاری غیرت کا پیالہ ایک عورت پر ہی کیوں چھلکتا ہے۔ ڈرو اٌس دن سی جس دن سے جب یہ غیرت نامی جن ہم عورتوں پر سوار ہو گیا۔ نہ جانے اس دن اس معاشرے کا کیا ہوگا جس دن ایک عورت نے اٌٹھ کر صحیح غیرت کا مفہوم سمجھا دیا۔ اس دن اس سماج اور ریاست کو کئی سوالات کے جوابات دینے پڑجائیں گے۔ دنیا کا کوئی قانون عورت کواس کی مرضی سے زندگی گزارنے سے نہیں روکتا۔ لیکن یہاں تو یہ گناہ کبیرہ ہے۔

ضلع خیرپور جہاں سے منتخب سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی میں وافر تعداد میں ممبران ایک لمبی خاموشی کا روزہ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ جنگل تو اس خوابوں والے جنگل سے بھی خوفناک اور بھیانک نکلا۔ ایک معصوم لڑکی کا سرعام قتل ہوتا ہے ریاست کہیں موجود نہیں۔ قانون زمیں پر نہیں، عوام کے ووٹوں پر بننے والے نمائندگان کہیں نظرنہیں آتے، جن حکمرانوں کو تاحیات سندھ تھالی میں سجا کر دیا گیا ہے، وہ بھی غائب ہیں!

رمشا کا قاتل سیاسی پشت پناہی میں آزادی سے گھومتا رہتا ہے اس جنگل میں قانون نافذ کرنے والے ادارے نیند کی گولیاں کھا کر سو جاتے ہیں۔ سندھ میں اگر کسی کی نیند حرام تھی تو وہ سندھ کی سول سوسائٹی تھی۔ تین دن تک سراپا احتجاج رہی اور اس دباؤ کی وجہ سے قاتل کی گرفتاری ممکن ہو پائی۔ پر معلوم نہیں قاتل کو سزا ہو گی یا نہیں۔ کیا پتا پھر سے جرگہ بیٹھ جائے۔ اور رمشا کا خون کسی روایتی جرگے کی نذر ہو جاہے؟

پھر یہاں پر گھری نیند سویا ہوا نام نہاد نیشنل میڈیا ہے۔ جس نے خاص طور پر اپنے دائرہ کار میں سے سندھ کو بے دخل کیا ہوا ہے اور قسم کھا رکھی ہے کہ سندھ کے لوگوں کے حقوق اور مسائل پر بات کرنے سے گریز کریں گے۔ کتنا بڑا مسئلہ کیوں نہ ہو۔ نیشنل میڈیا نے مکمل لاتعلقی کا مظاہرہ کیا ہوا ہے۔

غلط روایات کو قانون کا لبادہ اڑھا کر بڑے سے بڑا جرم چھپا لیا جاتا ہے۔ اس ملک میں مظلوم طبقہ ضرور ہے لیکن اٌس میں مظلوم سے مظلوم تر طبقہ دیہی عورت ہے۔ عورت کو مارنا مرد اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ عورت دن رات کھیتوں میں مزدوری کرکے جس مرد کو کھلائے وہ مرد اس کا رکھوالا بنتا خود سارا دن چائے کی دکان پر بیٹھ کر فلمیں دیکھتا ہے

جب گھر واپس آئیں تو سر پر غیرت کی پگڑی سجا کر علاقے کی کسی بھی عورت کو واجب القتل قرار دے سکتا ہے۔ جہاں ریاست اپنا کردار ادا کرنا بھول جائے اور قانوں وڈیروں کے دروازوں کا چوکیدار بن جائے پھر واقعی ایسی ریاست میں بیٹیوں کو پیدا ہونا ہی نہیں چاہیے!