ایمسٹرڈیم کے سیکس کے کاروبار کے لیے مشکل وقت

ایمسٹرڈیم کا ریڈ لائٹ ایریا
چار نوجوان ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مارتے، ہنستے کھیلتے، مختصر کپڑوں میں ملبوس عورتوں کی طرف ہاتھ ہلا رہے ہیں۔
ان میں سے ایک نے ایک قحبہ خانے کی طرف اشارہ کر کے مجھے کہا: ‘یہ صرف چھیڑخانی ہے، وہ بھی جانتی ہیں کہ یہ چھیڑخانی ہے۔ انھیں انگریزوں کا پتہ ہے۔ وہ ہم سے خاصے پیسے نکلوا لیتی ہیں۔’
لیکن نیدرلینڈز کے دارالحکومت کی یہ سیکس ورکرز مالی مشکلات کا شکار ہیں کیوں کہ اس ریڈ لائیٹ ایریا میں گاہک کم اور سیلفیاں لینے والے سیاح زیادہ نظر آتے ہیں۔
اب ایمسٹرڈیم کی خاتون میئر نے اس کا حل تلاش کرنے کی ٹھان لی ہے۔ فیمکے ہالسیما ایسے طریقے ڈھونڈ رہی ہیں جن کی مدد سے ان سیکس ورکرز کو کیمروں کے فلیش کی چکاچوند سے بچایا جا سکے۔
فرٹس روویٹ مجھے اس علاقے کی مکڑی کے جالوں کی طرح پھیلی گلیوں میں گھماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘یہ ایمسٹرڈیم کا سب سے مقبول علاقہ ہے۔’ گلیوں میں کئی سیکس ورکرز انھیں دیکھ کر شناسا انداز میں ہاتھ لہراتی ہیں۔
فرٹس اس علاقے میں کتابوں کی ایک دکان چلاتے ہیں اور اکثر ان عورتوں کو کافی پینے کے لیے بلاتے ہیں جو ان کے لیے گلیوں میں پیش آنے والی ہراسانی سے بچنے کا طریقہ ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ‘ان کے پاس بھاگنے کو کوئی جگہ نہیں۔ اگر انھیں روزی کمانی ہے تو انھیں کھڑکی میں کھڑا ہونا پڑتا ہے لیکن وہاں بہت، بہت زیادہ مرد آ رہے ہیں، انگلینڈ سے، سکاٹ لینڈ سے، آئرلینڈ سے۔ نشے میں دھت، چیختے چلاتے، تصویریں لینے کی کوشش کرتے۔’

‘میرے بچے نہیں جانتے میں کیا کرتی ہوں’

جب سیاح اپنے کیمرے اور موبائل ان کی طرف موڑتے ہیں تو نوجوان عورتیں اپنے منہ چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان میں سے کئی نے یہ زندگی خفیہ رکھی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی تصویر پر ان کے خاندان والوں کی نظر پڑ سکتی ہے۔
کرسٹینا اپنا دروازہ کھولتی ہیں تو یخ ہوا کا جھونکا ان کے بدن کو لرزا جاتا ہے۔
ان کے ہاتھ میں سگریٹ ہے جسے وہ رگڑ کر بجھا دیتی ہیں اور اپنے فون پر ایک ویڈیو آن کر لیتی ہیں اور مجھے ایک چھوٹے سے کوریڈور سے گزار کر ایک چھوٹے سے سفید اور گرم کمرے میں لے آتی ہیں۔ یہاں سامان خال خال ہے۔ صرف ایک آئینہ، پلاسٹک کا سیاہ گدا اور سلیپر۔ اس کے علاوہ ایک الارم بھی نظر آ رہا ہے۔
‘مجھے یہ (جسم فروشی) پسند نہیں، لیکن مجبوراً ایسا کرنا پڑتا ہے۔’
کرسٹینا دس سال سے اس ریڈ لائیٹ ایریا میں کام کر رہی ہیں۔ انھیں ہنگری سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے اس کام پر مائل کیا تھا۔
وہ آدھے گھنٹے کے سو یورو، اور گھنٹے کے ڈیڑھ سو یورو لیتی ہیں۔
‘میں اپنے دو بچوں کے لیے بچت کر رہی ہوں۔ ان کے مستقبل کی خاطر۔ وہ ہنگری میں میری ماں کے پاس رہتے ہیں۔ میرے بچے نہیں جانتی میں کیا کام کرتی ہوں۔’
کرسٹینا کہیں اور نہیں جانا چاہتیں۔ سیاحوں کے ہجوم کے باوجود یہاں کام اچھا چل رہا ہے۔
وہ ولندیزی زبان روانی سے بولتی ہیں اور مجھے بتاتی ہیں کہ ان کا کوئی دلال نہیں ہے۔ وہ اپنا جسم اس لیے فروخت کرتی ہیں کہ یہ کمائی کا بہت آسان طریقہ ہے۔
اور وہ خود کو یہاں محفوظ تصور کرتی ہیں۔
ایمسٹرڈیم کی میئر
ایمسٹرڈیم کی میئر فیمکے ہاسلیما ریڈ لائیٹ ایریا کو پھیلانا چاہتی ہیں

انتشار کا خطرہ؟

میئر ہاسلیما طوائفوں کو تنگ ریڈ لائیٹ ایریا سے باہر بھی لائسنس جاری کرنے پر غور کر رہی ہیں۔ تاہم جنس کی انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس طرح یہ پیشہ زیرِ زمین چلا جائے گا۔
کیرن ورکمین انسانی سمگلنگ کے شکار افراد کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ‘اس سے ان کی حیثیت متعین ہو جائے گی۔ یہ پیشہ گھروں، ہوٹلوں تک آ جائے گا۔ اگر آپ باقی شہر کو بھی طوائفوں کے لیے کھول دیں گے تو اس سے ایمسٹرڈیم میں ٹریفک کا مسئلہ بھی پیدا ہو جائے گا، لوگ جگہ جگہ عورتوں کو چھیڑا کریں گے، ان کی قیمت پوچھیں گے۔۔۔ اس سے انسانی سمگلنگ کو بھی تقویت ملے گی۔ اس بات کا غلط اندازہ مت لگائیں کہ اس سے شہر پر کیا اثر پڑے گا۔’

ایمسٹرڈم کا ریڈ لائیٹ ایریا

  • ولندیزی حکومت نے 2000 میں قحبہ گری کو قانونی قرار دے دیا تھا
  • 2009 میں وزارتِ انصاف نے اعلان کیا کہ ایک خصوصی پراسیکیوٹر قحبہ گری اور جرائم کے دھندے کے درمیان تعلق کو ختم کرنے کے لیے کام کرے گا
  • سیکس انڈسٹری تشدد، منشیات، کالا دھن سفید کرنے اور دوسرے جرائم سے اٹی پڑی ہے
  • انسانی سمگلنگ سے بھی ان قحبہ خانوں کا گہرا تعلق ہے
ڈی ویلن نامی اس ریڈ لائیٹ ایریا کو جرائم سے پاک کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ کونسل نے قحبہ خانوں سے دلالوں کو نکال باہر کیا اور سیکس ورکرز کو سستے مکان فراہم کرنا شروع کر دیے۔
کسی کو معلوم نہیں ہے کہ شہر میں کتنی سیکس ورکرز کام کرتی ہیں۔ اسے ‘تاریک ہندسہ’ کہا جاتا ہے۔
فرٹس رووٹ کہتے ہیں: ‘ایمسٹرڈیم کا کہنا ہے کہ ہر چیز کنٹرول میں ہے، لیکن ہم یہ تک نہیں جانتے کہ یہاں کتنی لڑکیاں کام کر رہی ہیں۔
‘بعض محققین کا کہنا ہے چار ہزار، بعض کہتے ہیں آٹھ ہزار۔ بعض کا کہنا ہے کہ دس فیصد کو سمگل کر کے لایا گیا ہے، بعض کہتے ہیں 90 فیصد کو۔ اگر ہم نچلی تعداد کو بھی قبول کر لیں تو اس کا مطلب ہے چار سو لڑکیاں اپنی مرضی کے بغیر پیشہ کر رہی ہیں۔ ان کا ہر روز ریپ ہو رہا ہے۔ شہر کھول دینے سے وہ غائب نہیں ہو جائیں گی۔’
ایمسٹرڈیم کا ریڈ لائٹ ایریا
میئر ہاسلیما اس سال کے دوران اپنی تفصیلی سفارشات پیش کریں گی۔
ان کی تجویز ہے کہ علاقے میں پولیس کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، سیاحوں پر موقعے پر جرمانے عائد کیے جائیں اور اگر علاقے میں بھیڑ بھاڑ زیادہ ہو جائے تو ‘کوڈ ریڈ’ نافذ کر کے مزید لوگوں کو وہاں نہ جانے دیا جائے۔
ایمسٹرڈیم کے محتسبِ اعلیٰ آرے زرمونڈ نے اس علاقے کو ‘رات میں جنگل’ قرار دیا ہے۔ وہ عمر کی کم سے کم حد مقرر کرنا چاہتے ہیں اور انھوں نے ایمسٹرڈیم ایئرپورٹ پر آنے والی سستی پروازیں بھی کم کرنے کی تجویز دی ہے۔
کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ قانونی طور پر منظور کردہ سیکس کے علاقے سے عورتوں کا استحصال ہوتا ہے۔
کیرن ورکمین کہتی ہیں: ‘اپنے دل کی گہرائیوں میں ہم جانتے ہیں کہ قحبہ گری عورتوں کے لیے نقصان دہ ہے، اجنبیوں کے ساتھ سیکس جسمانی اور دماغی دونوں طور سے نقصان دہ ہے۔’ وہ کہتی ہیں کہ سیکس کے کاروبار کو سہولت دینے سے دراصل حکومت دلال کا کردار ادا کر رہی ہے۔’
لیکن اس کے باوجود فی الحال بلدیہ قحبہ گری کے پیشے کو تحفظ دینا چاہتی ہے۔
ریڈ لائیٹ ایریا میں بہت سی کھڑکیوں پر ‘کرائے کے لیے’ کے نشان آویزاں ہیں۔ یہ کاروبار بھی آن لائن منتقل ہو رہا ہے۔ سیکس کی ویب سائٹوں کی مدد سے عورتوں کو عوام میں جا کر اپنی خدمات فروخت کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا پڑتا۔
اگر ریڈ لائیٹ ایریا صرف جنگل ہے تو آن لائن لاقانون جنگل ہے۔
19.1.2019