ویلیسی: خواتین کے لیے ’نئی ویاگرا‘ اتنی متنازعہ کیوں ہے؟


ویلیسی انجکشنتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionماہواری کے ختم ہونے والی عمر کے حصہ میں جنسی خواہش میں اضافے کے لیے فیف ڈی اے نے خواتین کے لیے نئی ویاگرا منظور کی ہے۔

امریکہ میں صحت عامہ کے انتظامی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے گذشتہ ماہ خواتین میں جنسی خواہش کو بڑھانے والی ایک نئی دوائی کی منظوری دی ہے۔ 

یہ ان خواتین کے لیے تیار کی گئی ہے جن میں ماہواری بند ہونے یا ماہواری میں بےقاعدگی جیسی علامات ظاہر نہیں ہوتیں مگر جنھیں جنسی خواہش میں کمی کا عارضہ یعنی ایچ ایس ڈی ڈی ہوتا ہے۔ 

ڈاکٹر اس صورتحال کو جنسی سرگرمی میں دلچسپی کی باقاعدہ اور مسلسل کمی کے طور پر قرار دیتے ہیں اور امریکہ میں بچے پیدا کر سکنے کی عمر کی چھ سے دس فیصد خواتین اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ 

بریمیلانوٹائیڈ (bremelanotide) نامی اس دوائی کو ویلیسی نامی تجارتی نام سے فروخت کیا جاتا ہے اور یہ دوسری مرتبہ ہے جب دواسازی کی صنعت نے ’خواتین کی ویاگرا’ متعارف کروانے کی کوشش کی ہے۔ 

مگر ایف ڈی اے کی اس منظوری نے ایک نئے تنازعے کو جنم دیا ہے کہ آیا ویلیسی واقعی کام کرتی ہے اور یہ کہ بریمیلانوٹائیڈ سے کوئی طبی مسائل بھی لاحق ہوسکتے ہیں؟ 

ویلیسی انجکشنتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionاس دوا کو انجیکشن کے ذریعے لیا جاتا ہے۔

انجیکشنز زیادہ بہتر یا گولیاں؟ 

ویلیسی جسے پلاٹن ٹیکنالوجیز نے تیار کیا ہے اور جس کا لائسنس اماگ فارماسیوٹیکلز کے پاس ہے، خود لگائے جا سکنے والے انجیکشن کے طور پر متعارف کروائی گئی ہے۔ 

یہ دوائی انسانی خون میں ڈوپامائن کی مقدار بڑھا کر اور سیروٹونن کی مقدار کم کر کے ’اینگزائٹی‘ کم کرتی ہے جو جنسی خواہش میں اضافہ کرتی ہے۔ 

اس نئی دوائی کا مقابلہ سپراؤٹ فارماسیوٹیکلز کی ایڈیی نامی دوائی سے ہوگا جسے روزانہ ایک گولی کی صورت میں لیا جاتا ہے اور اس کی منظوری ایف ڈی اے نے 2015 میں دی تھی۔ 

اس وقت اس فیصلے سے بھی کافی تنازع کھڑا ہوا تھا کیونکہ کچھ ماہرین کا کہنا تھا کہ ایڈیی ’نہایت کم مؤثر اور ممکنہ طور پر غیر محفوظ’ بھی ہے۔

ویلیسی کے تیار کنندگان کا کہنا ہے کہ مریضوں کو اس کے استعمال کے وقت الکوحل چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ ایڈیی کے استعمال کنندگان کو ابتدا میں ایسا کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ 

اس کے علاوہ ویلیسی تیار کرنے والی کمپنی کے مطابق اس کے روزانہ استعمال کی ضرورت نہیں جبکہ اس کا ایکشن تیز تر اور معتدل ضمنی اثرات کے ساتھ ہوتا ہے۔ 

ایچ ایس ڈی ڈیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionسائنسدان اب بھی ایچ ایس ڈی ڈی کی وجوہات نہیں جان سکے ہیں۔

خاموشی سے جھیلنا 

2016 میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایچ ایس ڈی ڈی ہر 10 امریکی خواتین میں سے ایک کو متاثر کرتا ہے جن میں سے زیادہ تر کبھی بھی اپنا علاج نہیں کرواتیں۔ 

اماگ فارماسیوٹیکل کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ولیم ہیڈن کہتے ہیں کہ ’ان میں سے کئی خواتین خاموشی سے اپنی زندگی گزار دیتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ اس پراڈکٹ کی درحقیقت کوئی خاص مارکیٹ نہیں ہے۔’ 

مگر اس انڈسٹری پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ ویلیسی کی سالانہ فروخت ایک ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ 

ایک کنسلٹنسی گروپ بلومبرگ انٹیلیجنس کے مطابق امریکہ میں ڈاکٹروں کی جانب سے ایڈیی کی تجویز میں گزشتہ سال مئی کے مقابلے میں اس سال مئی میں 400 فیصد کا اضافہ ہوا جس کے بعد یہ تعداد اب 3000 تک پہنچ گئی ہے۔ 

مگر اضافے کے باوجود ویاگرا کی لاکھوں کے حساب سے ماہانہ نسخوں سے اس کا بالکل بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ 

تناؤتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionسٹریس یا تناؤ کو بھی ایچ ایس ڈی ڈی کی ایک وجہ سمجھا جاتا ہے۔

تنازع کیا ہے؟ 

اماگ فارماسیوٹیکل کا کہنا ہے کہ آزمائش کے دوران زیادہ تر جو سائیڈ افیکٹس نوٹ کیے گئے وہ 40 فیصد کے قریب افراد میں درمیانی سے لے کر شدید متلی تھی۔ اس کے علاوہ جو دیگر سائیڈ افیکٹ رجسٹر ہوئے ان میں ہاٹ فلش یعنی جسم میں گرمی کی لہر کا دوڑنا اور سر درد شامل ہیں۔ 

ایف ڈی اے نے اس نئی دوا کی ایچ ایس ڈی ڈی سے گزر رہی خواتین کے لیے ’علاج کا آپشن مہیا کرنے کے لیے’ تعریف کی ہے۔ 

ادارے کا کہنا تھا کہ ’ایسی بھی خواتین ہیں جن میں بغیر کسی وجہ کے جنسی خواہش میں کمی ہوجاتی ہے جو کہ پریشان کن ثابت ہوسکتی ہے اور اب یہ ایک محفوظ اور مؤثر فارماکولاجیکل علاج سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ آج کی منظوری اس عارضے میں مبتلا خواتین کو علاج کا ایک اور آپشن فراہم کرتی ہے۔’

مگر ایف ڈی اے کے مطابق یہ واضح طور پر معلوم نہیں کہ ویلیسی جنسی خواہش یا پریشانی پر اثر انداز ہونے کے لیے دماغ میں کس طرح کام کرتی ہے۔ 

اس کے علاوہ اس بات پر بھی بحث موجود ہے کہ آیا ایچ ایس ڈی ڈی سے نمٹنے کے لیے دوائیں ہی بہترین ذریعہ ہیں، کیونکہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنسی خواہش میں کمی کی بیرونی اور نفسیاتی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔ 

اس بات پر بھی تنقید ہوتی رہی ہے کہ ایچ ایس ڈی ڈی پر ایف ڈی اے کے تازہ ترین پینل میں حصہ لینے والے زیادہ تر ڈاکٹر ایڈیی بنانے والی کمپنی سپراؤٹ فارماسیوٹیکل سے منسلک تھے۔ 

خواتین کی صحت کی کئی تنظیموں نے کہا ہے کہ ایف ڈی اے نے ویلیسی کے طویل المدتی اثرات پر مزید سکروٹنی کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔ 

انجکشنتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionاماگ فارماسیوٹیکل کا کہنا ہے کہ ٹرائل میں شامل 25 فیصد خواتین نے جنسی خواہش میں اضافہ رپورٹ کیا مگر 20 فیصد خواتین نے ٹرائل بیچ میں چھوڑ دیا تھا۔

طبی ٹرائلز 

نیشنل سینٹر فار ہیلتھ ریسرچ کی صدر ڈیانا زکرمین کہتی ہیں کہ ’اچھی خبر یہ ہے کہ ویلیسی کو ایڈیی کی طرح روزانہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر بری خبر یہ ہے کہ عوام کو اس دوا کے محفوظ ہونے کے بارے میں اعتماد نہیں ہو سکتا کیونکہ ہمارے پاس اس کے حوالے سے کوئی طویل المدتی معلومات موجود نہیں ہیں۔ 

ویلیسی کی طبی آزمائشیں 24 ہفتوں تک جاری رہیں جن میں ماہواری بند ہونے کی قریب پہنچ چکی ایچ ایس ڈی ڈی سے متاثر 1200 خواتین شامل تھیں۔ 

زیادہ تر مریضوں نے مہینے میں دو سے تین مرتبہ اس دوا کا استعمال کیا مگر کبھی بھی ہفتے میں ایک مرتبہ سے زیادہ نہیں۔ 

ان میں سے 25 فیصد کا کہنا تھا کہ انھوں نے جنسی خواہش میں اضافہ محسوس کیا۔ اس کے مقابلے میں جن خواتین کو بغیر بتائے نقلی دوائی دی گئی تھی، ان میں سے 17 فیصد نے مثبت نتائج رپورٹ کیے۔ 

مگر ایک نجی میڈیکل ٹرائل کمپنی کولمبس سینٹر فار وومینز ہیلتھ ریسرچ جو کہ آزمائشوں میں شامل تھی، اس کے مطابق ٹرائل میں شامل 20 فیصد خواتین نے یہ ٹرائل بیچ میں چھوڑ دیا تھا اور اس میں وہ آٹھ فیصد خواتین بھی ہیں جنھوں نے متلی کی وجہ سے ٹرائل چھوڑ دیا تھا۔