جمیکا سے تعلق رکھنے والی شیلی این فریزر نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری ایتھلیٹکس کے عالمی مقابلوں میں سو میٹر کی دوڑ جیت کر دنیا کی تیز ترین خاتون کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔
اتوار کی شب منعقد ہونے والی اس دوڑ میں 32 سالہ شیلی نے یہ فاصلہ 10.71 سیکنڈ میں طے کر کریئر کا آٹھواں عالمی اعزاز اپنے نام کیا۔
فتح کے بعد اپنے بیٹے کو گود میں لیے ٹریک کا چکر لگاتی شیلی فریزر کا کہنا تھا کہ ’بچے کی پیدائش کے بعد یہاں بطور عالمی چیمپیئن کھڑا ہونا ان کے لیے باعثِ فخر ہے۔‘
بی بی سی سپورٹس سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بیٹے کی پیدائش کے بعد واپسی اور آج جیسی کارکردگی کے بعد میں پرامید ہوں کہ میں ایسی تمام خواتین کے لیے مثال بنوں گی جو خاندان کی بنیاد رکھنا چاہتی ہیں یا ایسا سوچ رہی ہیں۔ آپ سب کچھ بھی کر سکتی ہیں۔‘
برطانیہ کی ڈینا ایشر سمتھ اس دوڑ میں دوسرے مقام پر رہیں۔
انھوں نے یہ فاصلہ 10.83 سیکنڈ میں طے کر کے نہ صرف نیا قومی ریکارڈ قائم کیا بلکہ وہ 36 برس میں ان عالمی مقابلوں میں سپرنٹ کے زمرے میں انفرادی طور پر کوئی بھی میڈل حاصل کرنے والی پہلی برطانوی خاتون بھی بن گئیں۔
سو میٹر کی دوڑ میں تیسری پوزیشن آئیوری کوسٹ کی میری جوزے تالو نے حاصل کی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل مقابلوں کے دوسرے دن امریکہ کے 23 سالہ کرسچیئن کولمین نے سو میٹر کی دوڑ جیت کر دنیا کے تیز ترین مرد کا خطاب جیتا تھا۔
انھوں نے یہ فاصلہ 9.76 سیکنڈ میں طے کیا تھا جبکہ امریکہ کے ہی جسٹن گیٹلن نے 9.89 سیکنڈ میں یہی فاصلہ طے کر چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔
کینیڈا کے آندرے دی گراس اس دوڑ میں تیسرے نمبر پر آئے اور کانسی کے تمغے کے حقدار ٹھہرے۔
اس فتح کے باوجود سابق ایتھلیٹس کا کہنا ہے کہ ان کے متنازع ماضی کی وجہ سے انھیں عالمی ایتھلیٹکس کا نیا چہرہ قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔
امریکہ کی انٹی ڈوپنگ ایجنسی نے کولمین پر 12 ماہ میں تین ڈوپنگ ٹیسٹ نہ دینے کا الزام عائد کیا تھا جسے بعد میں واپس لے لیا گیا تھا۔
ایتھلیٹکس کی دنیا میں لیجنڈ تصور کیے جانے والے سابق امریکی سپرنٹر مائیکل جانسن نے کہا ’یہ انھیں ان مقابلوں کے لیے نااہل بناتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایتھلیٹکس کا چہرہ ہونا تو درکنار یہ (الزام) ان کا پیچھا کرتا رہے گا اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔‘
خالی کرسیوں کے سامنے کارکردگی
دوحہ کے خلیفہ انٹرنیشنل سٹیڈیم میں 27 ستمبر سے شروع ہونے والے عالمی ایتھلیٹکس مقابلے چھ اکتوبر تک جاری رہیں گے اور ان میں دنیا بھر سے ہزاروں ایتھلیٹ شریک ہیں۔
تاہم ان مقابلوں میں مقامی شائقین کی عدم دلچسپی سامنے آنے کے بعد منتظمین کو تنقید کا سامنا ہے۔
قطر کے گرم موسم کی وجہ سے یہ مقابلے رات کو منعقد ہو رہے ہیں اور جب اتوار کی شب ساڑھے 11 بجے کے قریب خواتین کی سو میٹر دوڑ کا فائنل منعقد ہوا تو سٹیڈیم تقریباً خالی تھا اور فتح کے بعد ایتھلیٹس کو داد دینے کے لیے چند سو افراد ہی موجود تھے۔
ایتھلیٹکس کی عالمی فیڈریشن کے مطابق 40 ہزار نشستوں والے خلیفہ سٹیڈیم میں مقابلوں کے پہلے دن 12 ہزار کے قریب ٹکٹ فروخت ہوئے جبکہ دو ہزار مہمانان کو بھی مدعو کیا گیا تھا جبکہ سنیچر کو دن بھر میں 11 ہزار تین سو ٹکٹ فروخت ہوئے اور اتوار کے اعدادوشمار دستیاب نہیں۔
بی بی سی سپورٹس کی ماہر ڈینیس لوئیس کا کہنا ہے کہ آئی اے اے ایف نے ایتھلیٹس کو مایوس کیا ہے۔ ’ایتھلیٹس اتنی محنت کرتے ہیں اور بہترین کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کا کارکردگی دیکھنے کے لیے صرف خالی کرسیاں۔ یہ بہت بڑا دھچکا ہے۔ یہ درست بات نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اندازہ نہیں تھا کہ صورتحال اتنی بری ہو گی۔ ہم شائقین کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایتھلیٹس اس بات کے حقدار ہیں کہ انھیں وہ ماحول اور جوش ملے جس میں وہ اپنی کارکردگی دکھا سکیں۔‘.