شہزادی حسین
کچھ عرصہ پہلے جاب کے سلسلے میں سندھ کے کسی دور دراز علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا، بیچ میں ایک دن فری ملا تو سوچا ہوٹل میں رہنے سے اچھا ہے کسی دوست سے ملاقات کی جائے۔ میں اپنی قریبی دوست کے گھر چلی گئی۔ ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کے اتنے میں، میرے شوہر کا فون آگیا میں ان سے بات کرنے لگ گئی، جب فون بند کیا تو میری دوست کے گھر میں کام کرنے والی جو اس وقت وہاں کام کر رہی تھی، اس نے ایک دم سے مجھ سے پوچھ لیا باجی آپ کا شوہر آپ سے پیار کرتا ہے، ہاں جی کرتا ہے کیوں؟
میں نے ایک دم سے جواب دیا۔ آپ کو اس سے ڈر نہیں لگتا اس کا اگلا سوال، نہیں تو، اب بہلا شوہر بھی کوئی ڈرنے والی چیز ہے۔ مگر یہ سب تم کیوں پوچھ رہی ہو۔ میں نے آخر اس سے پوچھ ہی لیا، کیوں تمہارا شوہر تم سے پیار نہیں کرتا، تو اس نے جواب دیا نہیں میں نے اسے چھوڑ دیا۔ تم نے کیوں چھوڑ دیا؟ میں تہوڑا سا چونکی، کیونکہ ہماری سماج میں بیوی شوہر کو چھوڑد یہ یہ بڑے بدنامی کی بات ہے اور اس کے لئے بڑا دل، گردہ چاہے۔
باجی مجھے اس سے ڈر لگتا تھا، اب اس میں ڈرنے والی کیا بات ہے میں نے کہا۔ اس نے صفائی والا کپڑا نیچے رکھا اور خود بھی بیٹھ گئی اوراپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان سنانے لگی، جو سن کر میرے رونگٹے کھڑی ہوگئے۔
جب میری شادی ہوئی تب میں چھوٹی تھی جس آدمی سے میری شادی ہوئی وہ مجھ سے عمر میں بہت بڑا تھا۔ رخصتی کے وقت میں بہت روئی، گڑ گڑائی لیکن میری کسی نے نہیں سنی کیونکہ اب میں پرائی ہو چکی تھی۔ بالاخرمیں روتی بلکتی سسرال آگئی، رات کو جب وہ بندہ کمرے میں آیا تو اس نے آتے ساتھ دونوں ہاتھ میری ناڑے میں ڈالے اور کپڑے اتارنے لگا۔ ، میں ڈر کے مارے رونے لگی لیکن وہ باز نہیں آیا تو میں خود کو بچانے کے لے چیختی چلاتی دروازہ کھول کر باہر صحن میں بھاگ گئی۔ اتنے مے میری ساس بھی اپنے کمرے سے نکل آئی اور میرا شوہر بھی میرے پیچھے ہی آگیا۔ میں اپنی ساس سے لپٹ کر رونے لگ گئی، اس نے اپنے بیٹے کو سمجھایا کے دیکھو ابھی یہ چھوٹی بچی ہے، اس لئے ڈر رہی ہے، تم آج رہنے دو، دو چار دن میں ٹھیک ہوجائے گی، اور مجھے سمجھا بجھا کر کمرے میں واپس بھیج دیا۔ میں سسک سسک کر جب سوگئی، تو میرے شوہر نے نیند میں میرے ساتھ غلط کام کیا اس دن سے مجھے اس سے نفرت ہوگئی اور پھر وہ ہر روز مجھے مارتا پیٹتا۔
ایک دن تو اس نے میرا سر پکڑ کر دیوار پر دے مارا، میرے سر سے خون بہنے لگا اور کمرے کی دیوار میں سریے لگے ہوئے تھے، وہ میرے سر میں گھس گئے، یہ دیکھو وہ اپنے زخموں کے نشاں دکھانے لگی۔ میرے ساس نے زخموں میں سرمہ ڈال کر اوپر سے پٹی باندھ دی اور مجھے میکے چھوڑ آئی اور امی سے کہا کے اسے کچھ سمجھاؤ سکھاو ٔاور مجھے کہا کے ٹھیک ہونے تک اپنی ماں کے پاس رہو۔ میں نے اپنے گھر والوں سے کہا کے میں اب واپس نہیں جاؤں گی۔
انہوں نے بھی پہلے تو سمجھایا بجھایا، نہیں مانی تو مارا پیٹا لیکن میں واپس نہیں گئی۔ بعد میں خلع لے لی، اب میں اپنے بھائی کے گھر میں رہتی ہوں، ایک بیٹی ہے اس کی پڑھائی اور پیٹ گزر کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہوں تاکہ میری بیٹی پڑھ لکھ کر کچھ بن جائے اور کسی کی محتاج نا بنے۔ میں جب بھی کسی میاں بیوی کو آپس ہنستے ہوئے، باتیں کرتے دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کی کاش اگر میری ماں باپ نے میرے شادی چھوٹی عمر میں نہیں کروائی ہوتی اور میرے شوہر نے شادی کی پہلی رات میرے ساتھ زبردستی نہیں کی ہوتی، پیار سے سمجھایا ہوتا، تو میں بھی آج اپنے گھر میں خوش ہوتی۔
آج جب میں نے ہسپتال میں پڑی نور خاتون کو ایسے بے یار و مددگار دیکھا تو پورا واقعہ میری دماغ میں گھومنے لگا۔ ہماری ہاں جیسے ہی بیٹی پیدا ہوتی ہے ہم اسے سکھانے لگ جاتے ہیں، کہ اب تم ہماری عزت ہو، ہماری عزت تمہاری ہاتھ میں ہے۔ سر پر دوپٹہ اوڑھو، اونچی آواز میں بات مت کرو، ہنسو مت، لڑکوں سے بات مت کرو، گھر سے باہر نہ نکلو، اس جیسی اور بہت سی باتیں۔ جیسے ہی تھوڑی بڑی ہوتی ہے ہمیں اس کی شادی کا غم لگ جاتا ہے۔
لڑکی بڑی ہوگئی ہے اب اس کی شادی ہوجانی چاہے، اور یہ غم ماں باپ سے زیادہ پڑوسیوں کو لگا ہوتا ہے، ہائے تمہاری بیٹی کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی، میں نے بھی تو اپنی بیٹی کو اپنے گھر کا کردیا اب وہ جانے اور اس کا گھر۔ جتنا جلدی ہو سکے اتنا جلدی اپنے سر سے بیٹیوں کا بوجھ اتارو۔ اور پھر ایک دن آتاہے کچھ لوگ آتے ہیں ڈھول شہنائیاں بجتی ہیں، لال کپڑوں میں لپیٹ کر دو بول کے عیوض بیٹی کا بوجھ کسی اور کے سر ڈال کر ہم مکت ہوجاتے ہیں۔
جس بندے کو بیٹی سونپی جاتی ہے اس کا اپنہ مائنڈ سیٹ پہلے سے بنا ہوتا ہے، کے بس شادی ہو توسہاگ رات منائیں۔ وہ رات لڑکی کے لے ایسی ہوتی ہے جیسے قربانی کی رات، دراصل لڑکی کے لے وہ سہاگ رات سے زیادہ حلال ہونے کی رات ہوتی ہے۔ مرد کو یار دوست گھر کی بڑی بوڑہیاں پہلے سے ہی سکھا پڑھا دیتی ہین، کے لڑکی کنواری ہے یا نہیں کسی اور سے تو کوئی چکر نہیں چلایا ہوا، ہماری عزت نہ خاک میں مل جائے۔ لڑکے نے آتے ساتھ ہی دونوں ہاتھ لڑکی کی شلوار میں ڈالنے ہیں، اگر لڑکی ذرا سا ڈری سہمی یا انکار تو دور کی بات ٹال مٹول سے کام لیا تو پھر تو پکی بات ہے کے لڑکی کا کسی اور سے چکر ہے۔
اور اس کی سزا وہ زندگی دے کر چکاتی ہے اگر زندہ بچ گئی تو زندگی بھر چکاتی رہتی ہے۔ سسرال کی لعن طعن اور ظلم سہتے گزرتی ہے یا پھر ماں باپ کے گھر میں یہ سنتے ہوئے کہ اتنی اچھی ہوتی تو شوہر کے پاس ہوتی۔ لیکں اکثر لڑکیوں کو کالی کی تہمت لگا کر قتل کر دیا جاتا ہے، ان کی نصیب میں نہ کفن ہوتا ہے نا کوئی جنازے نماز پڑھانے والا اور نہ کوئی آنسو بہانے والا۔ لیکن بدقسمتی سے نورخاتون بچ گئی کیونکہ موقع واردات پر پولیس پہنچ گئی، اس طرح اسے زندگی تو مل گئے ہے، لیکن یہ بھی کیا زندگی پائی، ماں باپ نے جس کے پلے باندھا، اس نے کالی کا الزام لگاکر قتل کرکے اپنی جان چھڑالی۔
اور ماں باپ کو بیٹی سے زیادہ اپنی عزت بچانے کے لالے پڑگئے، انہو نے بھی منہ موڑ لیا اب بھلاکلموہی بیٹی کے لیے کون اپنی عزت داؤ پر لگائے۔ جن بچیوں کو ہم پوری زندگی یہ سبق پڑھاتے رہتے ہیں، کے تم ہماری عزت ہو، ہماری عزت کا خیال رکھنا، ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے ہماری عزت کم ہو، برادری میں ہماری ناک اونچی رکھنا، کوئی یہ نہ کہی دیکھو تو منہ پر کالک مل کر میکے میں آ بیٹھی ہے۔ کب تک ہم جھوٹی شان و شوکت اور عزت غیرت کی نام پر اپنی بیٹیوں کی بلی چڑھاتے رہیں گے، بیٹیاں بھی تو انسان ہیں جنھیں ہم نازوں سے پال پوس کر بڑا کرتے ہیں۔
اور پھر ایک دن آتا ہے کے وہ اتنی پرائی ہوجاتی ہیں، کی ہم انہیں گلے لگانہ تو دور ملنا تک گوارا نہیں کرتے۔ آخر کیوں؟ اسلام سے پہلے لوگ بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے، اور اب کالی کے نام پر زندہ دفن کر دیتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ تب تک نہیں رک سکتا جب تک ہم ان کے سروں سے اپنی عزت کا بوجھ نہیں اتارتے، کیونکہ عورت انسان ہے اس کا اپنا مقام ہے اس لیے اپنی سوچ بدلو، اور سماج کو بدلو۔