اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول 2019 میں ہوا ’قتلِ آم‘

اعظم خان 

اسلام آباد میں منعقد ہونے والے تین روزہ چھٹے لٹریچر فیسٹیول میں غالب کا ذکر تو عام رہا ہی لیکن اس بار آم کسی روح کی طرح محمد حنیف کے گرد ہی گھومتے رہے۔

ہوٹل کے ہر کونے میں سکرینیں نصب ہیں اور اندر بند کمروں میں کیا ہو رہا ہے یہ سکرین کرنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہے۔ ان سکرینوں پر ایک ہی وقت میں لٹریچر فیسٹیول کے مختلف مذاکروں، مشاعروں اور قوالیوں کو دکھایا جا رہا ہے۔

ان میں سے ایک سیشن آموں پر ہو رہا ہے۔ یہ آموں کا الوداعی موسم تھا یا مصنف کی کشش کہ ان خاص آموں کے دیوانے ایسے جمع ہوئے جیسے آج یومِ آم منایا جا رہا ہو۔ لیکن پھٹا آم دیکھ کر بہت سے دیوانے ایسے بھی تھے جو آم کی صحیح آبیاری نہ کرنے والے باغ کے مالی اور اس کے مالک پر ہی پھٹ پڑے۔ مصنف نے بہت وضاحتیں دیں لیکن بحث شدت اختیار کر گئی۔

ایک ناقد کا تو اتنا میٹر گھوما کہ انھوں نے تو آم کے تمام کرداروں کو امریکی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے سب کو ایک ہی کشتی کے مسافر قرار دیا۔ اب کی بار وضاحتیں دینے کے بجائے محمد حنیف نے چپ چاپ آم کے ساتھ اپنے آرائیں کنکشن کا اعتراف کر لیا۔

مزاح کی اقسام پر صحافی نازش بروہی نے بات کی تو محمد حنیف نے اپنے سابقہ تجربے کی روشنی میں فوجی مزاح کی ایک نئی قسم کا بھی انکشاف کیا اور سر غفور کا حوالہ دیا تو مجمع اس قسم کے مزاح کا سنتے ہی مسکرائے بلکہ قہقہے لگائے بغیر نہ رہ سکا۔

مصنف کا کہنا ہے کہ ان کے اردو ترجمے والے ناول کو کئی برس تک شائع نہیں کیا گیا تو انھوں نے خود پبلشر کو بتایا کہ آپ شائع کر دیں، مت ڈریں، ویسے بھی ‘اُن’ کو کوئی بات دس سال سے پہلے سمجھ نہیں آتی۔

وہاں اُن سمیت سب ہنس پڑے جس پر کسی نے خبردار کیا کہ انگلش میں لکھے گئے ناول کے دس سال پورے ہو چکے ہیں، اب احتیاط بہتر ہے۔

دی لائبریری پراجیکٹ کی مہرینہ عزیز نے مصنف سے پوچھا کہ فوجی آمر پر کیا سوچ کر لکھا تھا؟

اس سوال نے تو جیسے مصنف کی دکھتی رگ پر ہی ہاتھ رکھ دیا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی دور کے 11 برسوں میں لکھی گئی کتابوں اور ضیا کے قریب اٹھنے بیٹھنے والے صحافیوں سے ایک ہی بات کا پتا چلا کہ وہ بہت سادہ تھے، بس نماز روزہ کی ہی پابندی کرتے تھے۔ یہ ایسی صورتحال تھی جس پر خاصی سوچ بچار کے بعد مصنف نے آم کی ایک پیٹی کا مکمل پوسٹ مارٹم کا فیصلہ کیا۔

پھربحث شروع ہوئی، ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمے کے اسلوب پر تو مصنف پھٹ پڑے کہ انھوں نے مختلف ناموں پرغور ضرور کیا جن میں پاٹے آماں دا سیاپا، قتلِ آم، اور جہاز پھٹ گیا۔

آم کے سیزن کے اختتام پر مصنف نے دعویٰ کیا کہ خوش قسمتی سے انھیں دنیا بھر کی مسلح افواج میں بولے جانے والے انگریزی کے تمام 130 الفاظ پر مکمل عبور حاصل ہے، جن میں ان کی پوری زندگی کا مقصد بیان ہو جاتا ہے۔ تاہم ناول کے مترجم نے مزید دعویٰ کیا کہ جب بات پاکستان کی ہو تو پھر اس میں پنجابی کے اضافی 30 الفاظ بھی شامل ہو جاتے ہیں جو اہلِ زبان، پٹھان اور سندھی بھی سمجھ جاتے ہیں۔

فیسٹیول میں اگر تھکن ہو جائے یا کچھ بوریت محسوس ہو رہی ہو تو بک سٹالز پر رش بڑھ جاتا ہے اور اگر کچھ بھوک کا احساس ہو رہا ہو تو قریب ہی نصب کیے گئے طرح طرح کے روایتی کھانوں کے سٹالز مختلف ڈیل آفر کر رہے ہیں۔

فیسٹیول میں شامل کچھ سینیئر سیاستدان بھی ہیں، یہ نہیں معلوم کہ انھوں نے ڈیل ون اور ڈیل ٹو سے کیا مطلب اخذ کیے لیکن عام آدمی نے ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ شاید یہ ڈیل ان کے بجٹ پر بھاری نہیں ہے۔

‘تبدیلی کے دور میں مزاح’

اس سیشن میں صحافی اور کالم نگار ندیم فاروق پراچہ اپنے جوبن پر نظر آئے۔ وہ اس سیشن کے کپتان تھے اور یوں ان کا بلا مسلسل سکور اگلتا رہا۔ ان کے ساتھ بہترین پارٹنرشپ فصیح الدین ذکی، علی آفتاب سید اور جارج فلٹن کی رہی۔ جو وسیم اکرم کی اہلیہ کے ساتھ ٹی وی پروگرام کی میزبانی کر چکے ہیں۔

فیسٹیول

ندیم پراچہ نے اپنا فرضِ منصبی نبھاتے ہوئے واضح کیا کہ یہ کرکٹر وسیم اکرم کی بات ہو رہی ہے وسیم اکرم پلس کی نہیں۔ عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کئی پہلوؤں سے زیر بحث رہا۔

ندیم فاروق پراچہ نے کہا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ عمران خان ملک میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے بہت زیادہ پرعزم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مزاح وہاں ہوتا ہے جہاں آزادیِ اظہار نہیں ہوتا لیکن اب تو اس پر بھی رد عمل آتا ہے۔ اپنی بات کی دلیل میں دی نیشن اخبار کے کارٹونسٹ پر اس کے خاکے کی وجہ سے دباؤ کا ذکر کیا۔

جارج فلٹن، جو پاکستانی شہریت کے حامل بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے فوجی دور میں ہمیں زیادہ آزادی حاصل رہی۔ ان کے خیال میں اب انگلش میڈیا زیادہ دباؤ کا شکار ہے اور خاموش ہے۔

’زندگی زنداں دلی کا نام ہے‘

سینیٹر رضا ربانی نے 50 کی دہائی میں راولپنڈی سازش کیس میں قیدی بننے والے ظفراللہ پوشنی کی موجودگی میں ان کی جیل میں لکھی گئی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے ہر دور میں ڈیل جیسی حقیقت کو تسلیم کیا۔

ایم این اے نفیسہ شاہ اور صحافی زاہد حسین کی موجودگی میں رضا ربانی نے اعتراف کیا کہ ہر دور میں کچھ نہ کچھ ریلیف حاصل کرنے کی کوششیں ہوئیں جس کی ابتدا پاکستان کیمونسٹ پارٹی نے رکھی، نتیجتاً آج سویلین سپیس بہت کم ہو کر رہ گئی ہے۔

ظفراللہ پوشنی نے اپنی آپ بیتی میں شاعر فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، میجر اسحاق اور دیگر کرداروں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور ان کے ساتھ گزری یادداشتوں کو قلمبند کیا ہے۔ ظفراللہ پوشنی نے اردو جیل میں فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر سے سیکھی جس کے بعد اپنی کتاب اردو میں ہی لکھنے کا فیصلہ کیا۔

اس کتاب کی تقریب رونمائی میں فیض احمد فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی بھی موجود تھیں جو بچپن میں اپنی والدہ کے ساتھ اپنے والد کو ملنے جاتی تھیں تو اور اس بلی کو بھر ضرور دیکھتی تھیں جس سے ان کے والد فیض احمد فیض ڈرتے تھے۔

رضا ربانی نے کہا کہ جب انھوں نے جیل میں لکھی گئی ظفراللہ پوشنی کی یہ کتاب پڑھی تو ایسا لگا جیسے یہ سب آج کے حالات پر لکھی گئی ہو یا جیسے آج 50 کی دہائی کا ٹیپ ریکارڈر چلا دیا گیا ہو۔

ان کے بقول اس دور میں بھی یہی نعرے تھے کہ سیاسی جماعتیں ناکارہ ہو چکی ہیں اور مارشل لا ہی مسائل کا واحد حل ہے، زرعی اصلاحات کے بعد پہلے احتساب ہوگا اور پھر کہیں جاکر بعد میں انتخابات بھی کرا دیے جائیں گے یعنی اداروں کی سوچ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔

اس آپ بیتی میں مصنف نے جیل میں کی گئی کچھ شرارتوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا۔

‘معیشیت، اٹھارویں ترمیم اور مفادات کا ٹکراؤ’

ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا تھا کہ اشرافیہ نے تمام اداروں کو ہائی جیک کرلیا ہے۔ ان کی رائے میں بنگلہ دیش میں جو تبدیلی آئی ہے اس کو وجہ خواتین کی سماجی اور معاشی شعبوں میں شرکت ہے۔ ان کے شامل ہونے سے ملک کی معیشیت پر اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود نے کہا کہ جو بھی حکومت آتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد وسائل صوبوں کو منتقل ہوجاتے ہیں جس سے دفاع کا بجٹ اور قرضوں کی ادائیگیوں میں مشکلات آتی ہیں۔

وفاق مزید اخراجات کے لیے مزید قرضے لینے پر مجبور ہوجاتاہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ صوبے اپنے وسائل مقامی حکومتوں کو منتقل نہیں کرتے۔ڈاکٹر عشرت حسین نے دعوی کیا کہ عمران خان نے شفافیت کے لیے ایک نظام وضع کردیا ہے، اب وہ خود اثر انداز نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کوئی کاروبار بھی نہیں کرتے۔

اختتامی تقریب سے خطاب میں انور مقصود نے اپنے نئے دلچسپ مکالمے سنائے۔ ان کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال کے خواب ستاروں پر کمند ڈالنے کے بجائے، اب چاند وہ دیکھتے ہیں جنھیں اپنا کمر بند نظر نہیں آتا۔

علامہ اقبال اور قائد اعظم کا مکالمہ بھی سنایا گیا۔ جس میں موجودہ حالات دیکھ کر علامہ کہتے ہیں کہ قائد میں نے اس کا خواب نہیں دیکھا تھا اور قائد کہتے ہیں کہ میں نے بھی یہ پاکستان نہیں بنایا تھا۔