ڈاکٹر خالد سہیل کے کالم ‘کیا آپ کا کوئی رشتہ دار ذہنی مریض ہے؟ کے حوالے سے ملک رشیر صاحب کا خط
ڈاکٹر صاحب سلام!
کیا اجتماعی نوعیت کی ذہنی بیماریاں بھی ہوتی ہیں؟ میرا پاکستان کے مسلمان معاشرے سے تعلق ہے۔ میرے ارد گرد لوگوں میں ظلم اور استحصال کے حوالے سے منفعل رویہ، خود اذیتی اور طفلیت جیسے رحجانات کو گروہ میں پھیلی ذہنی بیماری کہا جا سکتا ہے یا اسے صرف انفرادی نفسیاتی بگاڑ کے طور پر دیکھنا کافی ہے؟ میں یہ سوال اس لیے کر رہا ہوں کہ شدید ذہنی امراض کا شکار رشتہ داروں سے کہیں زیادہ بڑی تعداد مجھ جیسے لوگوں کی ہے جو بظاہر دنیا کے کام تو کر پاتے ہیں لیکن ان کی دماغی صحت خاصی مخدوش ہوتی ہے۔
ایک صاحب ہر سال مرنے کی آرزو لئے رقت آمیز الوداع کہہ کر حج کو جاتے ہیں۔ واپسی پر اپنے فائیو اسٹار حج کا تنقیدی تبصرہ سناتے ہیں۔ اگلے سال پھر سے مدینہ میں مرنے کا قصد کر لیتے ہیں۔ موت کی حقیقت پر ہمارے یہاں جو طفلانہ رد عمل عام ہے کیا اسے اجتماعی ذہنی کجی قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہم سوشل میڈیا پر اور ذاتی زندگی میں جارحیت یا تابعداری کے علاوہ کسی اور رویے کے بالکل عادی نہیں۔ ایسی عصبی بیماریاں جو آبادی کی اکثریت میں ظاہر ہوں ان کے لئے کیا کوئی اجتماعی لائحہ عمل ضروری ہے؟ شکریہ۔
ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب
محترمی رشید ملک صاحب میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میرا کالم بڑے غور سے پڑھا اور ایک فکر انگیز سوال پوچھا۔
آپ کے سوال کا تعلق انفرادی نفسیات کی بجائے سماجی نفسیات سے ہے اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ سماجی نفسیات کے معیار انفرادی نفسیات سے بہت مختلف ہیں۔
ایک انسان اپنی قوم کی اکثریت سے جس لحاظ سے جدا اور مختلف ہوتا ہے وہ اس کی انفرادی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس کی چند مثالیں حاضر ہیں۔
ایک قوم کے اکثر مرد اردو اور پنجابی کے گانے سنتے ہیں لیکن ایک شخص انگریزی اور فرانسیسی کے گانے بھی سنتا ہے۔ ایک قوم کی اکثرعورتیں پاکستانی اور ہندوستانی کھانے پکاتی ہیں لیکن ایک عورت چینی اور اطالوی کھانے بھی بناتی ہے۔
ایک ادارے کے سب انجینیر رشوت لیتے ہیں لیکن ایک انجینیر ایسا ہے جو رشوت نہیں لیتا۔
یہ رویے اور عارتیں ان لوگوں کی انفرادی شخصیت کا اظہار کرتی ہیں اور وہ عادتیں اور رویے جو سب لوگوں میں مشترک ہیں وہ ان کی سماجی شخصیت کے آئینہ دار ہیں۔
جب ہم قوموں کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہیں تو ہم ان کی ثقافت ‘ان کے کلچر اور ان کی روایتوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں اور ان کے آدرشوں، ان کے خوابوں ‘ان کے قوانین اور ان کے سماجی و سیاسی نظاموں کا مطالعہ کرتے ہیں جن سے ان کی اقدار اور سماجی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ مختلف قوموں میں مختلف کلچر پائے جاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جاننے کے لیے کہ کوئی قوم کتنی صحتمند ‘غیر صحتمند یا بیمار ہے، ہم کسی کلچر ‘کسی ثقافت اور کسی سماجی طرزِ زندگی کو کس کسوٹی پر پرکھ سکتے ہیں۔
یہ موضوع بہت وسیع ہے اور اس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے میں یہاں صرف ایک پہلو کو اجاگر کروں گا۔ اور وہ پہلو انسانی حقوق کا ہے۔
بیسویں صدی میں اقوامِ متحدہ نے انسانی حقوق کا بل پاس کیا اور تمام ممالک کے سربراہوں سے کہا کہ ہر ملک کے سبھی باشندے برابر ہیں اور سب شہریوں کو برابر کے انسانی حقوق ملنے چاہییں۔ ان حقوق میں
اگر ہم دنیا کے مختلف ممالک کو انسانی حقوق کی کسوٹی پر پرکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ وہ ممالک جن کے سو میں سے نمبر 80 یا 90 سے زیادہ ہیں ان میں ناروے ڈنمارک سویڈن نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا شامل ہیں اور وہ ممالک جن کے نمبر 50 سے بھی کم ہیں ان میں سعودی عرب ‘افغانستان اور پاکستان، لاطینی امریکہ ‘افریقہ اور مشرقِ وسطیی کے کئی ممالک شامل ہیں۔
بدقسمتی سے بہت سے مسلمان ممالک میں وہ شہری جو انسانی حقوق سے محروم ہیں ان میں بچے عورتیں اور اقلیتیں شامل ہیں۔
ان روایتوں اور اعمال سے اس قوم کی شدت پسندی جارہیت پسندی اور تشدد پسندی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
وہ قومیں جو اپنے بچوں عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتیں اور انہیں عزتِ نفس سے زندہ نہیں رہنے دیتیں وہ ذہنی طور پر صحتمند نہیں ہیں۔
جب ہم ان قوموں کا مطالعہ کرتے ہیں جو اپنے تمام شہریوں کے حقوق کا احترام کرتی ہیں وہ قومیں سیکولر ہیں ‘سوشلسٹ ہیں، جمہوری پسند ہیں اور انسان دوست ہیں۔
ایسی قوموں میں پارلیمنٹ قوانین بناتی ہے
جو لوگ قانون توڑتے ہیں انہیں پولیس گرفتار کرتی ہے اور عدالت کے سامنے پیش کرتی ہے۔ جج فیصلہ سناتا ہے۔ اگر ملزم مجرم ہے تو اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے اور اگر ذہنی بیمار ہو تو ماہرِ نفسیات کے پاس بھیجا جاتا ہے۔
صحتمند قوموں میں عوام پارلیمنٹ ‘پولیس اور عدلیہ کا پر اعتماد ہی نہیں فخر بھی کرتے ہیں۔ جو حکومت عوام کی خدمت نہیں کرتی ان کے نمائندوں کو عوام چند سال بعد بدل بھی دیتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں ساری دنیا میں چند ہی ممالک ایسے ہیں جن میں عورتوں بچوں اور اقلیتوں کو برابر کے حقوق ملتے ہیں۔ انسانیت نے آمریت سے جمہوریت تک کا طویل سفر طے کیا ہے جس میں طاقت کا سرچشمہ ڈکٹیٹر اور فوجی جرنیل نہیں عوام ہیں۔ آج بھی ایسی قومیں موجود ہیں جو انسانی حقوق کا احترام نہیں کرتیں۔
یہ ہماری سماجی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کی گھروں اور سکولوں میں ایسی تربیت کریں کہ وہ رنگ نسل زبان اور مذہب سے بالاتر ہو کر سب انسانوں کا احترام کریں۔
جب تک کسی قوم کے سیاسی مذہبی اور سماجی رہنما سب شہریوں کے حقوق کا احترام نہیں کریں گے ‘عادلانہ قوانین اور منصفانہ نظام نہیں قائم کریں گے اس وقت تک اس قوم کے شہری ذہنی طور پر صحمند زندگی نہیں گزار سکیں گے۔
امید ہے آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہوگا