جیمز گیلاہار
نامہ نگار سائس و صحت
تصویر کے کاپی رائٹFONDS DE DOTATION CLINATEC
فرانسیسی ماہرین کے مطابق انھوں نے جسمانی طور پر ایک معذور شخص کو دماغ سے کنٹرول ہونے والے ’ایکسو سکیلیٹن‘ سوٹ کے ذریعے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو حرکت دینے کے قابل بنا دیا ہے۔
تیس سالہ تھیبو کا کہنا تھا کہ یہ سوٹ پہن کر پہلا قدم اٹھا کر انھیں یوں محسوس ہوا جیسے وہ چاند پر پہلے شخص ہوں۔
ان کی نقل و حرکت، خاص طور پر چہل قدمی کو بالکل صحت مند آدمی کی طرح تو نہیں تھی اور روبو سوٹ ایک لیباٹری یا تجربہ گاہ ہی میں استعمال کیا گیا تھا۔
لیکن تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے ایک دن معذور افراد کی زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
یہ کس طرح کام کرتا ہے؟
دماغ پر لگائے جانے والے سینسر
تھیبو کے دماغ کا آپریشن کر کے ان کے دماغ کی جھلی پر دو ’امپلانٹس‘ لگا دیئے گئے۔ یہ دماغ کے ان حصوں پر لگائے گئے جو جسم کی حرکت کو کنٹرول کرتے ہیں۔
64 الیکٹروڈز جو ہر امپلانٹ میں تھے وہ دماغی حرکات سے تحریک لے کر قریب میں موجود کمپیوٹر کو سنگل بھیجتے ہیں۔
انتہائی جدید کمپیوٹر سافٹ ویئر دماغی لہروں کو پڑھتا ہے اور ان کو ہدایات میں بدل دیتا ہے جو ایکسوسکیلیٹن کو کنٹرول کرتی ہیں۔
تھیبو اپنے دونوں بازوں کو نہ صرف ہلا سکتے ہیں بلکہ تین اطراف میں حرکت دے سکتے ہیں۔
یہ استعمال کرنا کتنا آسان ہے؟
تھیبو، جو اپنے خاندان کا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، پیشے کے لحاظ سے عینک ساز ہیں اور وہ چار سال قبل ایک نائٹ کلب میں پندرہ میٹر کی بلندی سے گر گئے تھے۔
ان کی ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ آئی اور وہ اپاہج ہو گئے اور دو سال تک ہسپتال میں رہے۔
سینسرز دماغ میں آنے والی تبدیلی یا پیغام کو پڑھ لیتے ہیں
لیکن سنہ 2017 میں انھوں نے ایکسوسکیلیٹن کے تجربات میں حصہ لیا جو جرنوبل کی یونیورسٹی میں کیے جا رہےتھے۔
ابتدا میں انھیں دماغی امپلانٹ سے ورچوئل کرداروں یا کمپیوٹر گیمز کے کرداروں کو کنٹرول کرنا شروع کیا اور اس کے بعد وہ سوٹ کے ذریعے چلنے پر آئے۔
انھوں نے کہا کہ جب انہوں نے چلنا شروع کیا تو یہ ایسا ہی تھا جیسے پہلا انسان چاند کی سطح پر چل رہا ہو۔ ’میں دو برس تک چل نہیں سکا تھا، اس لیے مجھے بھول چکا تھا کہ کھڑے کیسے ہوتے ہیں۔ مجھے یہ بھی بھول چکا تھا کہ میں کمرے میں موجود دوسرے لوگوں سے زیادہ طویل قد کا ہوں۔‘
جہاں تک بازوؤں کو کنٹرول کرنے کا تعلق ہے تو اس میں انھیں زیادہ وقت لگا۔
کپمیوٹر دماغ سے نلکنے والی لہروں کو ہدایات میں تبدیل کرنا ہے
’یہ کام بہت مشکل تھا کیونکہ اس میں آپ کے جسم کے بہت سے پھٹوں کو ایک ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔ میں ایکسوسکیلیٹن سے جو کام لیتا ہوں، ان میں سب سے زیادہ حیران کن چیز یہی ہے۔‘
ایکسو سکیلیٹن کتنا موثر ہے؟
65 کلوگرام وزنی اس روبوٹ نے تھیبو کے اعضاء کی صلاحیتیں مکمل طور پر بحال نہیں کی ہیں۔
لیکن بحالی کے دیگر طریقوں کے مقابلے میں ایکسو سکیلیٹن اس لحاظ سے ایک بڑی پیشقدمی ہے کہ اس سے آپ کسی ایک عضو کو اپنے دماغ کی مدد سے سب سے زیادہ کنٹرول کر سکتے ہیں۔
جب آپ ایکسوسکیلیٹن استعمال کرتے ہیں تو اس میں گر جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے تھیبو کو چھت سے لگی ہوئی ایک زین یا ہارنیس کو اپنے جسم کے ساتھ باندھنا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایکسو سکیلیٹن میں ابھی تک یہ صلاحیت نہیں کہ آپ اسے لیبارٹری کے باہر بھی استعمال کر سکیں۔
تصویر کے کاپی رائٹFONDS DE DOTATION CLINATEC
Image caption
تھیبو کو ایکسو سکیلیٹن میں باندھا جاتا ہے
کلینیٹک کمپنی کے صدر پروفیسرلوئس بینابد کا کہنا ہے کہ یہ ایجاد ’ابھی اس مرحلے سے بہت دور ہے کہ آپ اس کی مدد سے خود چل پھر سکیں۔‘
’تھیبو ابھی اس قابل نہیں ہیں کہ وہ گرنے سے بچنے کے لیے تیزی سے اپنے ہاتھ پاؤں کوحرکت دے سکیں۔‘
لیکن اگر انھیں کو کسی خاص چیز کو چُھونا ہو تو وہ ایکسو سکیلیٹن کی مدد سے اپنے بازوں کو اوپر نیچے حرکت دے سکتے ہیں اور اپنی کلائی کو موڑ بھی سکتے ہیں۔ جب اس کا تجربہ کیا گیا تو 71 فیصد مرتبہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہے۔
پروفیسر بینابد کا کہنا تھا کہ ’ہم نے مسئلہ حل کر لیا ہے اور دکھا دیا ہے کہ یہ کس اصول پر کام کرتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ایکسو سکیلیٹن کے ذریعے ہاتھ پاؤں استعمال کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔‘
’یہ مریضوں کی زندگی بہتر کرنے کی جانب ایک قدم ہے۔‘
اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے؟
فرانسیسی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کی کوشش جاری رکھ سکتے ہیں۔
تاہم فی الوقت وہ دماغ سے نکلنے والی ہدایات کو ایک حد تک ہی پڑھ کر آگے کمپیوٹر کو بھیج سکتے ہیں، اس لیے ایکسو سکیلیٹن ایک حد تک ہی مدد کر سکتا ہے۔
ایکسو سکیلیٹن کے پاس دماغ سے نکلنے والے پیغام کو کسی عضو کی حرکت میں تبدیل کرنے کے لیے صرف 350 ملی سیکنڈ کا وقت ہوتا ہے، اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر عضو کی حرکت کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔
ہاتھوں کنٹرول کرنے کا مظاہرہ
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر امپلانٹ پر لگے ہوئے 64 الیکٹروڈز میں سے ماہرین ابھی تک صرف 32 کو استعمال کر پاتے ہیں۔
باقی 32 الیکٹروڈز کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، تاہم اس کے لیے زیادہ طاقتور کمپیوٹرز اور مصنوعی ذہانت کی ضرورت ہو گی تاکہ دماغ سے آنے والی ہدایات کو کم وقت میں سمجھا جا سکے۔
اس کے علاوہ ماہرین انگلیوں کے ذریعے حرکت کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں تاکہ تھیبو چیزوں کو اٹھا سکیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھ بھی سکیں۔
وہ اپنی وھیل چیئر کو کنٹرول کرنے کا کامیاب تجربہ پہلے ہی کر چکے ہیں۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
یونیورسٹی آف لندن سے منسلک پروفیسر ٹام شیکپیئر کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ تحقیق اس میدان میں ’ایک خوش آئند اور پرجوش ترقی‘ ہے، تاہم اس تصور کو مریضوں کے علاج کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کرنا ابھی بہت دور کی بات ہے۔
’یہ کہنا کہ اس شعبے میں بڑا انقلاب آ گیا ہے، اس کے اپنے خدشات ہیں۔ مثلاً اس چیز پر اخرجات کی بھی ایک حد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جن لوگوں کی ریڑھ کی ہڈی زخمی ہو جاتی ہے، ان میں سے اکثر کو یہ پیچیدہ ٹیکنالوجی فراہم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں ابھی تک صرف 15 فیصد مریض ایسے ہیں جنہیں وھیل چیئر اور اس جیسی دیگر سہولتیں میسر ہیں۔