فرعون کے دور کا عبادت خانہ جو ایک ڈیم کی نذر ہو جاتا





کو شیئر کریں ای میل




ابوسمبل
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

شہروں کی ہنگامہ خیزی سے بہت دور جنوبی مصر کی قدیم نوبیہ وادی میں ابو سِمبل کے مقام پر پہاڑ پر کندہ ایک ایسا عجوبہ موجود ہے جسے دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔
اس عجوبے کا مسکن صدیوں پرانا ایک معبد ہے، جسے لوگ ہیکلِ عظیم کے نام سے جانتے ہیں۔
اندر داخل ہوتے ہی جو چیز آپ کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے، وہ اس معبد میں لگے اونچے اونچے ستون ہیں جن پر نہایت باریکی سے بنے ہوئے نقش و نگار قدیم عسکری تاریخ بیان کر رہے ہیں۔ ان خوبصورت ستونوں کے سہارے کھڑی چھت پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو ایک بہت بڑی پینٹنگ دکھائی دیتی ہے جس پر پر پھیلائے چمگادڑ کندہ ہیں۔
فرش سے لیکر چھت تک دیواروں پر لکھی تحریر اور کندہ تصاویر میں رامسس دوئم کی جنگی فتوحات کی تاریخ ہے۔ یہ رامسس دوئم ہی تھا جس نے اس شاندار معبد کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ اسی لیے ہیکل عظیم کے وسیع صحن میں رامسس دوئم کے چار بڑے بڑے مجسمے کھڑے ہیں جن کے چہرے چڑھتے سورج کی طرف ہیں اور لگتا ہے کہ اپنے وقت کا یہ طاقتور ترین فرعون معبد سے پرے دور تک پھیلی ہوئی صاف پانی کی جھیل کو دیکھ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
یہ سارا منظر کسی حیرت کدے کی سیر سے کم نہیں، لیکن اگر قدیم مصر کی تاریخ ایک ہلکا سا خم نہ لیتی تو آج یہاں کچھ بھی نہ ہوتا۔
بلکہ یہ ہیکلِ عظیم کب کا ایک جھیل میں غرق ہو چکا ہوتا۔ اور اس سے زیادہ مشکل یہ تصور کرنا ہے کہ اگر ابو سمبل کو محفوظ نہ کر لیا جاتا تو آج دنیا کے کئی دوسرے بڑے بڑے عجوبوں کی طرح ابو سِمبل کا ذکر بھی ہمیں صرف تاریخ کی کتابوں میں ملتا۔
امراء کے لیے پرتعش سیاحتی مہمات کا اہتمام کرنے والی ایک بڑی کمپنی، جیوگرافک ایکسپڈیشن' کی ڈائریکٹر کِم کیٹنگ کہتی ہیں کہ ' اپنے قدیم عبادت خانوں کو بچانے میں مصر نے بہت زبردست کام کیا ہے۔ یہ عظیم عمارت اس کی بہت اچھی مثال ہے۔ اس کے اندر بنے ہوئے آرٹ ورک کا نرم نرم روشنی میں چمکنا، دیواروں پر کندہ تصویروں اور نقش و نگار میں پوشیدہ قدیم فاتحین کی کہانیاں، کس طرح وقت کے ساتھ ساتھ مصر کو فتح کیا گیا، اور ایک خوبصورت جھیل کے کنارے اس معبد کا بنایا جانا، یہ سب کچھ بہت شاندار ہے۔'




ابوسمبلتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

شمالی افریقہ کی وادی نوبیہ مصر کی جنوبی سرحد سے شمالی سوڈان تک پھیلی ہوئی ہے، اور اس صحرا میں کہیں کہیں آپ کو کھجور کے درختوں میں گھرے نخلستان نظر آتے ہیں اور کبھی موسمی ندیاں۔ عظیم دریائے نیل کا مسکن بھی یہی وادی ہے جہاں یہ دریا مصر کے شہر اسوان کے پاس سے گزرتا ہوا قائرہ کی جانب بڑھ جاتا ہے۔
زمانہ قدیم میں یہ وادی سونے اور جواہرات کی سرزمین ہوا کرتی تھی، جہاں ایک کے بعد ایک بادشاہ تخت نشین ہوا۔ ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنے جاہ و جلال کی دھاک بٹھانے کے لیے اہرام، معبد اور دیگر یادگاریں تعمیر کرائیں۔
ابو سمبل ان یادگار تعمیرات میں سے وہ ہے جو آج بھی کھڑی ہے۔ اس کی تعمیر 13ویں صدی عسوی میں ہوئی اور اس میں 20 برس لگے۔ ہیکلِ عظیم کے پہلو میں ایک چھوٹا معبد بھی ہے جو رامسس دوئم کی ملکہ، نیفراتی' کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔




ابوسمبلتصویر کے کاپی رائٹALAMY

کیٹنگ کہتی ہیں کہ جب ابو سمبل کو پہلی مرتبہ دیکھا تو وہ ششدر رہ گئی تھیں۔ لیکن ان کی حیرت میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ 1960 کے عشرے میں بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم نے کس طرح اس یادرگار کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور کتنی احتاط سے ایک ایک ٹکڑے کو نئی جگہ پہنچایا۔ اور پھر اسے دریائے نیل کی بڑھتی ہوئی سطح سے محفوظ رکھنے کے لیے پرانی جگہ سے 60 میٹر اوپر اس نئے مقام پر دوبارہ جوڑ کر ایک مرتبہ پھر کھڑا کر دیا۔
کیٹنگ نے جس جھیل کا ذکر کیا تھا اس کا نام 'جھیل ناصر' ہے، یہ پانی کا وہ ذخیرہ ہے جو اس وقت یہاں بن گیا تھا جب وادی میں شدید سیلاب آیا تھا۔ آج سے پچاس برس پہلے اس جھیل کا وجود تک نہیں تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ تمام کام اتنی صفائی سے کیا گیا ہے کہ آپ بتا نہیں سکتے۔ میرے جیسا شخص بھی بہت کوشش کے باوجود بھی نہ بتا پائے۔'




جھیل ناصرتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے 'نوبیہ مہم' کا آغاز سنہ 1960 میں اس وقت کیا تھا جب متحدہ عرب جمہوریہ ( مصر اور شام کی شام کی مشترکہ مملک جو 1958 سے 1961 تک رہی) نے اسوان کے نواح میں دریائے نیل پر ایک نئے ڈیم کی تعمیر شروع کی۔ اگرچہ اس ڈیم سے وادی نوبیہ میں آبپاشی کے نظام میں بہتری آ جانا تھی اور مصر کی پن بجلی کی ہیداوار میں بھی اضافہ ہونا تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس مقام پر پانی کی مقدار میں اضافے سے چند برس کے اندر اندر ابو سمبل کے شاندار معبد مکمل طور پر پانی میں ڈوب جاتے۔
ان عبادت گاہوں کو بچانے کے لیے یونیسکو نے پہلی مرتبہ بین الاقوامی سطح پر ایک ایسی مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد ایک تایخی اثاثے کو محفوظ کرنا تھا۔ یو نیسکو کا یہ منصوبہ اپنی مثال آپ تھا، جس کے بعد ادارے نے عالمی تاریخی اثاثوں کی فہرست مرتب کرنا شروع کی جس میں اب تک دنیا کے مختلف علاقوں میں موجود ایک ہزار 73 اثاثوں کا شامل کیا جا چکا ہے۔ ان میں تہذیبی اور قدرتی مقامات دونوں شامل ہیں۔
کیٹنگ کے بقول 'ابو سمبل آنے سے پہلے مجھے اس بات کا بالکل علم نہیں تھا کہ یہ وہ مقام ہے جس نے یونیسکو کو عالمی تاریخی اثاثوں کی فہرہست بنانے کی ترغیب دی۔ لیکن اب میں بالکل سمجھ سکتی ہوں کہ ایسا کیوں ہوا۔ یہ مقام، اس کی تاریخ، اس میں ہر وہ چیز موجود ہے جسے دیکھ کر آپ کہیں کہ واہ کیا بات ہے۔‘
لیکن فراعین کے دور کی ان عبادت گاہوں کو ایک جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ کھڑا کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔
یونیسکو کے ہیریٹیج ڈویژن کے شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر میچلڈ روزلر کہتے ہیں کہ 'یہ ایک بہت بڑا کام تھا۔ ایک ایسا کام جو میں نہیں سمجھتا کہ ہم آج دوبارہ کر سکتے ہیں۔ یہ مہم اتنی بڑی تھی کہ اس سے پورے خطے پر دونوں قسم کے اثرات مرتب ہونا تھے، ماحول پر بھی اور علاقے کی معاشرت پر بھی۔'




ابوسمبلتصویر کے کاپی رائٹALAMY

1963 کے ابتدائی عرصے میں شروع ہونے والے اس کام میں ہائڈرالکس کے ماہرین، انجینئروں، آثار قدیمہ کی کھدائی کے ماہرین اور دیگر تجربہ کار افراد نے یونیسکو کے سامنے ایک کئی سالہ منصوبہ رکھا جس میں دونوں عبادت گاہوں کوتوڑنا، بڑے معبد کے 807 اور چھوٹے معبد کے 235 برابر کے ٹکڑے کرنا، ہر ٹکڑے پر نمبر لگانا، ان کو بڑی احتیاط سے اس مقام سے ہٹانا، اور پھر ان کو نئی جگہ پر بالکل اسی ترتیب اور انداز میں جوڑنا، یہ سب شامل تھا۔ منصوبے پر کام کرنے والے مزدوروں نے نہایت باریکی سے یہ پیمائش بھی کی کہ جب رامسس دوئم کے مجسموں کو نئی جگہ پر نصب کیا جائے تو رامسس کے چہرے پر سال کے دو خاص دنوں میں سورج کی کرنیں ایک خاص زاویے سے پڑیں۔ یہ کام اگلے تقریباً پانچ برس جاری رہا اور آخر کار ستمبر 1968 میں ایک رنگارنگ تقریب میں اس طویل منصوبے کی کامیاب تکمیل کا اعلان کیا گیا۔
ڈاکٹر روزلر کے بقول 'ابو سمبل کا منصوبہ ایک ایسا منصوبے تھا جس میں وہ چاروں چیزیں موجود تھیں جن کے نام پر یونیسکو کا نام رکھا گیا ہے، یعنی کلچر، سائنس اور تعلیم۔ اس منصوبے میں یہ تینوں چیزیں اکھٹی ہو گئیں۔‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ آثار قدیمہ کی بحالی کی تاریخ میں ایک منصوبہ کسی بڑے امتحان سے کم نہیں تھا۔ آپ تصور کریں کہ اتنا بڑے منصوبے کو تپتی دھوپ میں ایک ایسی جگہ پر عملی جامہ پہنایا گیا جہاں دور دور تک کچھ نہیں تھا۔ آج اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو شاید آپ سوچیں کہ اس منصوبے کی ضرورت کیا تھی۔ لیکن یہی وہ بات ہے جو یونیسکو ثابت کرنا چاہتا تھا، کہ آپ تمام وسائل کو اکھٹا کر کے بین الاقوامی تعاون سے اتنا بڑی کام کر سکتے ہیں، ایک ایسا کام جو شروع کرنے کے بعد آپ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے۔
'ہم یہ بات سمجھتے ہیں کہ کوئی ملک اتنا بڑا کام اکیلے نہیں کر سکتا۔'
یہ بھی پڑھیے
نوبیہ مہم کے نتیجے میں جس کامیابی سے ابو سمبل کے عجائبات کو بحال کیا گیا، اس کے بعد سے میکسیکو، جرمنی، اور جنوبی افریقہ میں بھی آثار قدیمہ کو بھی آنے والے نسلوں کے لیے محفوظ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آثار قدیمہ کو بچانے کی طریقوں میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ اب دنیا کی توجہ ان آثار قدیمہ پر ہے جو جنگ سے تباہ ہو جانے والے عراق اور یمن کے علاوہ ایتھوپیا میں بھی ہیں جہاں کچھ ہی عرصہ پہلے یونیسکو نے ایک قدیم مینار کو بحال کیا ہے جو 24 میٹر بلند ہے اور اس کا وزن 160 ٹن ہے۔
نوبیہ منصوبے کی تکمیل کے پچاس برس بعد، آبای سے دور واقع ابو سمبل جانا اور وہاں قدیم عبادت گاہوں کی زیارت کرنا کئی سیاح ایک بڑی بات سمجھتے ہیں۔ یہاں آپ جھیل ناصر کے تازہ پانی میں مچھلی کا شکار بھی کر سکتے ہیں، لیکن دھیان رہے اس جھیل میں مگرمچھ بھی ہوتے ہیں۔
لیکن ابو سمبل کی سیاحت کا نقطہ عروج بہرحال ان عبادت گاہوں کو دیکھنا ہے جو اس انسانی جذبے کی عکاسی کرتی ہیں کہ کس طرح ایک تاریخی اثاثے کے تحفظ سے ہم اپنی تاریخ کو محفوظ کر سکتے ہیں۔