سحر کو معلوم تھا کہ کھیل کے میدان میں خواتین پر پابندی ہے۔ لیکن وہ فٹبال میچ دیکھنا چاہتی تھیں اس لیے مردوں کے لباس میں سٹیڈیم تک پہنچ گئیں۔ لیکن اندر قدم نہیں رکھ سکیں۔
سحر کی معمولی سی خواہش تھی جسے دنیا کی کروڑوں خواتین بڑی آسانی سے پوری کر لیتی ہیں۔ اسی برس مارچ میں سحر کی پسندیدہ ٹیم میدان میں اتری۔ سحر نے یہ میچ دیکھنے کے لیے مردوں کا لباس پہنا، بالوں پر نیلے رنگ کی وِگ لگائی اور لمبا اوور کوٹ پہن لیا۔
اس کے بعد وہ تہران آزاد سٹیڈیم کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ لیکن وہ سٹیڈیم کے اندر قدم نہیں رکھ سکیں، راستے میں ہی سکیورٹی اہلکاروں نے انھیں گرفتار کر لیا۔
یہ بھی پڑھیے
سحر کو عدالت نے نوٹس بھیجا جس کے جواب میں سحر نے عدالت کے باہر خود کو آگ لگا لی۔ دو ہفتے بعد انھوں نے تہران کے ایک ہسپتال میں دم توڑ دیا۔
سحر کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر زبردست مہم چل پڑی۔ ایران پر دباؤ بڑھنے لگا کہ وہ سٹیڈیم میں خواتین کے داخل ہونے پر عائد پابندی کو ختم کرے۔ اس مہم میں متعدد ایرانی خواتین بھی شامل ہوئیں۔ دیکھتے دیکھتے عام ایرانی لوگوں کی آوازیں حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر بلند ہونے لگیں۔
اب ایران نے وعدہ کیا ہے کہ وہ کمبوڈیا کے ساتھ ہونے والے فٹبال میچ میں ساڑھے تین ہزار خواتین مداحوں کو سٹیدیم میں میچ دیکھنے کی اجازت دے گا۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجینسی ارنا نے چار اکتوبر کو اس بات کی تصدیق کی کہ ایرانی فٹبال فیڈریشن نے فیفا سے وعدہ کیا ہے کہ 10 اکتوبر کو تہران آزاد سٹیڈیم میں ہونے والے فٹبال میچ میں ایرانی خواتین کو سٹیڈیم آنے کی اجازت دی جائے گی۔
ایران کا کہنا ہے کہ میچ کے لیے ٹکٹ فوری طور پر بک گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم از کم ساڑھے تین ہزار ایرانی خواتین میچ دیکھنے جائیں گی۔
دیکھتے ہی دیکھتے ٹکٹ بک گئے
خواتین کو ٹکٹ دینے کے لیے الگ سے انتظامات کیے گئے تھے۔ ایرانی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں سارے ٹکٹ بک گئے۔ سنہ 2022 میں ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میچ دکھانے کے لیے سٹیڈیم میں خواتین کے بیٹھنے کے لیے مزید انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
خبر رساں ایجینسی رائٹرز کے مطابق فیفا کے اہلکاروں نے بتایا ہے کہ کل 4,600 ٹکٹ خواتین کے لیے فراہم کرائے جائیں گے اور امید کی جا رہی ہے کہ ان ٹکٹز کی منتظر خواتین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔
سٹیڈیم میں تقریباً ایک لاکھ افراد میچ دیکھ سکتے ہیں۔ فیفا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اہلکاروں کو تہران بھیجے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ خواتین اس میچ کو دیکھ سکیں۔
’دا بلو گرل‘
ایران کی 29 سالہ فٹبال مداح سحر خدایاری کی پسندیدہ ٹیم استقلال تہران فٹبال کلب تھی جس کا رنگ نیلا ہے۔ اسی وجہ سے لوگ سحر کو پیار سے ’دا بلو گرل‘ کہنے لگے تھے۔ سحر نے گزشتہ ماہ خود کو آگ لگا لی تھی جس میں وہ 90 فیصد جل گئی تھیں۔
شیعہ ملک ایران نے سنہ 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد سے سٹیڈیم میں خواتین کے داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اسلامی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ’خواتین کو مردوں جیسے شوق رکھنے اور آدھے ادھورے کپڑوں میں مردوں کو دیکھنے سے دور رہنا چاہیے‘۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے ایرانی معاشرے میں جدید خیالات کو شامل کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ اس معاملے میں تقریباً ناکام ہی رہے ہیں۔ ناقدین کی نظر میں ایران میں آج بھی خواتین کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک ہوتا ہے۔
ترقی پزیر ایرانی رکن پارلیمان پروانہ سلاہشوری نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’جہاں خواتین کا مقدر مرد طے کرتے ہیں اور انھیں بنیادی انسانی حقوق سے دور رکھتے ہیں۔ جہاں مردوں کے بےلگام ہونے میں خواتین ان کا ساتھ دیتی ہیں، وہاں جل کر مرنے والی لڑکیوں کے لیے ہم سبھی ذمہ دار ہیں۔‘
گرفتاری کے بعد سحر کی پریشانی
ایران میں سحر کی موت کے بعد خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن مزید سرگرم ہو گئے۔ ایران کی خواتین گزشتہ کئی دہائیوں سے خواتین اور مردوں میں تفریق کرنے والے قوانین کے سائے میں جی رہی ہیں۔
سحر کی گرفتاری کے بعد انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ ان پر حجاب نہ پہننے کی وجہ سے مناسب عوامی رویوں کی خلاف ورزی اور سکیورٹی اہلکاروں کی تذلیل کے الزامات تھے۔
سحر کو عدالت نے دو ستمبر کو نوٹس بھیجا تھا اور انھیں مطلع کیا گیا تھا کہ انھیں چھ ماہ کی سزا ہو سکتی ہے۔ سحر کی بہن نے ایک ایرانی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان تمام باتوں سے پریشان تھیں اس لیے انھوں نے خود کو آگ لگا لی۔
اوپن سٹیڈیم موومنٹ کے تحت ایرانی خواتین کھل کر سامنے آئی ہیں۔ سحر کی موت کی خبر بین الاقوامی میڈیا میں پھیل جانے کے بعد فیفا بھی حرکت میں آیا۔ فیفا کے چیئرمین جیانی انفینٹینو نے کہا کہ ’ہمارا موقف بالکل واضح ہے۔ خواتین کو سٹیڈیم میں جانے کی اجازت ملنی چاہیے۔‘
سی آئی اے ورلڈ فٹبال سٹیٹسٹکس کے مطابق ایران کی آٹھ کروڑ آبادی میں 60 فیصد افراد تیس برس سے کم عمر کے ہیں۔ ایران میں فیس بک اور ٹوئٹر پر پابندی ہے لیکن زیادہ تر نوجوان اس پابندی کی خلاف ورزی کر کے ورچوئل پرائیویٹ نیٹورک کا استعمال کرتے ہیں۔
واشنگٹن کے ادارے فریڈم ہاؤس کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران میں 60 فیصد افراد انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں اس مہم کو پھیلانے میں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
سنہ 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں خواتین پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔ لیکن اس بار حکومت کو جھکنا پڑ گیا ہے۔