پاکستان کے مشہور فلم ڈائریکٹر جامی کا وائس آف امریکہ کی ارم عباسی سے خصوصی انٹرویو ۔ ریپ کا نشانہ بننے کے انکشافات سوشل میڈیا پر کرنے کے بعد سے وہ کسی نا معلوم مقام پر موجود ہیں۔
پاکستان کے مشہور فلم ڈائریکٹر جامی یعنی جمشید محمد رضا کہتے ہیں کہ ‘میں تیرہ برسوں سے تنہائی کا شکار ہوں کیونکہ میرے دوستوں کی ہرمحفل میں میرا ریپسٹ عموماً موجود ہوتا ہے اور میں اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتا’۔ جامی، سوشل میڈیا پر اپنے ساتھ ہونے والے ریپ کے انکشافات کرنے کے بعد نامعلوم مقام سے وائس آف امریکہ سے بات کر رہےتھے۔
جامی نے چند دن پہلے ٹویٹر پر اپنے ساتھ ہونے والے ریپ کے واقعے کا پہلی مرتبہ ذکر کیا تھا، جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی حمایت اور مخالفت میں کئی لوگ سامنے آئے ۔ انہیں سوشل میڈیا ٹرولز کے ہاتھوں تذیل کا بھی سامنا ہے،جس کے بعد وہ اپنی حفاظت کے لیے کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہو گئے ہیں۔
واٹس ایپ پر آڈیو کے ذریعے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جامی نے کہا ، کہ جب یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی خود کشی کے بعد پاکستانیوں نے #metoo مہم کے خلاف سوشل میڈیا پر شور مچایا ، تو مجھے لگا کہ مجھے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بھی بتانا چاہیے کیونکہ می ٹو کی تذلیل کا نقصان ان متاثرین کو ہو گا جو میری طرح جنسی زیادتی کے کرب سے گزر رہے ہیں۔ ان سے بولنے کا حوصلہ چھینتے ہوئے میں نہیں دیکھ سکتا۔
سینتالیس برس کے جامی نے بتایا کہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والا ان کا اچھا دوست تھا اس لیےاس کے گھران کا آنا جانا عام تھا۔ جامی کے بقول ، ‘میں 34 برس کا تھا، جب ایک دن ان کے گھر گیا۔ اس دن انہوں نے میرا ریپ کیا اور میں جیسے سکتے میں چلا گیا۔ میری آواز جیسے حلق سے نکلنا بند ہو گئی ہو’۔
جامی نے بتایا، ․جب میں گھر لوٹا، تو میں نے اپنی بیوی کو سارا واقعہ سنایا۔ ہمارے گھر خواتین چلاتی ہیں۔ ان سے بات کر کے ہی شائد میں کسی حد تک ٹھیک ہو پایا۔ میرے گھر والے اتنے غصے میں تھے کہ وہ فوری اس شخص کے گھر جانا چاہتے تھے’۔
دو سال پہلے امریکہ سے شروع ہونے والی #metoo مہم جب پاکستان پہنچی ، تب سے ہی جامی متاثرہ خواتین اور مردوں کے لیے سوشل میڈیا پر آواز اٹھاتے رہے ہیں گلوکارہ میشا شفیع نےاداکار اور گلوکار علی ظفر پر انہیں ہراساں کرنے کا الزام لگایا، اس کے باوجود لکس سٹائل نے علی ظفر کو اپنے ایوارڈ شو پر مدعو کیا۔۔ جامی نے احتجاج کے طور پر اپنے دو لکس سٹائل ایوارڈز اپنے گھر کے باہر سڑک پر رکھ دیے۔ انہیں سوشل میڈیا پر یہ جرات مندانہ قدم اٹھانے پر بےحد سراہا گیا۔
جامی کہتے ہیں ، ‘لوگ میرا مذاق اٹھا رہے ہیں کہ میں ہٹا کٹا آدمی ہوں تو میں نے ریپسٹ کو مار کیوں نہیں بھگایا ، لیکن وہ اس ذہنی دباؤ کو نہیں سمجھتے جس سے متاثرہ شخص گزر رہا ہوتا ہے۔ ریپ کے فوراً بعد میری ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی تباہ ہو گئی۔ میں اس وقت فوٹو گرافر تھا۔ لیکن مجھ سے کام نہیں ہو پاتا تھا۔ میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ میں تنگ آکر چھ ماہ کے لیے اپنے بھائی کے پاس امریکہ چلا گیا۔ آج بھی جب میں می ٹو میں کسی متاثرہ شخص کی کہانی سنتا یا دیکھتا ہوں تو میری تکلیف دوبارہ جاگ اٹھتی ہے’۔
ان کے مطابق، ‘اس ہولناک واقعہ کے کچھ ماہ بعد میرے والد کی وفات ہو گی۔ اس سے مجھے اور بھی زیادہ تکلیف پہنچی۔ میرے والد کے جنازے پر جب وہ شخص آیا، تو سب کو علم ہے کہ اسے باہر سے ہی واپس بھیج دیا گیا اور جن لوگوں کو نہیں معلوم تھا، وہ سوچ رہے تھے ایسا کیوں ہو رہا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ریپسٹ کا نام اس لیے نہیں لے رہے کیونکہ پھر ساری توجہ متاثرین سے ہٹ کر غلط جانب جا سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں انہوں نے ‘اپنی کہانی #metoo کو کمزور کرنے کے لیے نہیں بلکہ متاثرین کو ہمت دینے کے لیے سنائی ہے تاکہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں بولنے سے گھبرائیں ناں’۔
‘اگر میں اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی پر اب بھی چپ رہا تو پھر تو کوئی بھی ہمت باندھ کر سامنے آنے کی جرات نہیں کرے گا’۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔