اونٹاریو: سائنس دانوں نے کہا ہے کہ اگر آپ چائے پینے کے شوقین ہیں تو پلاسٹک کے ٹی بیگ میں بند چائے پینا چھوڑدیجیے کیونکہ صرف ایک مرتبہ ہی ٹی بیگ سے پلاسٹک کے اربوں ذرات چائے کے اندر داخل ہوکر ہر گھونٹ کے ساتھ آپ کے حلق سے معدے تک پہنچتے ہیں۔
کینیڈا کی مشہور مِک گِل یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اگر 95 درجے سینٹی گریڈ تک گرم پانی میں ٹی بیگ ڈبویا جائے تو اس سے پلاسٹک کے 11 ارب ذرات خارج ہوکر چائے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کی جسامت 100 نینومیٹر سے لے کر 5 ملی میٹر تک ہوسکتی ہے۔ اس طرح دیگر کھانوں اور غذاؤں کے مقابلے میں یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔
مِک گِل یونیورسٹی کی ماہر نتھالی تفینکجی کہتی ہیں کہ نمک میں پلاسٹک ذرات معلوم کیے جاچکے ہیں جو ایک گرام نمک میں 0.005 گرام تک ہوسکتے ہیں۔ لیکن چائے کے کپ میں ان کی مقدار ہزاروں گنا زیادہ ہوسکتی ہے یعنی ایک کپ چائے میں 16 مائیکروگرام تک پلاسٹک موجود ہوسکتا ہے۔
اس کےلیے نتھالی نے کینیڈا کے شہر مانٹریال کے چائے خانوں سے چار طرح کے مختلف ٹی بیگز لیے، انہیں کاٹ کر کھولا گیا، دھویا گیا اور 95 درجے سینٹی گریڈ پانی میں کھولایا گیا۔ اس کے بعد الیکٹرون مائیکرو اسکوپ اور اسپیکٹرو اسکوپی سے ان کا جائزہ لیا گیا۔ جب کہ کچھ بیگ بغیر کاٹے بھی استعمال کیے گئے تھے۔
اگرچہ ترقی یافتہ ممالک میں فراہم کردہ پانی میں پلاسٹک کے ذرات دیکھے گئے ہیں تاہم عالمی ادارہ صحت نے اب تک ان کے صحت پر اثرات اور نقصان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
نتھالی نے پلاسٹک سے آلودہ پانی میں عام آبی کیڑے یعنی واٹر فلی کو رکھا اور ان کا مشاہدہ کیا۔ یہ جانور مرے تو نہیں لیکن ان کا برتاؤ بدلا اور ان میں بعض جسمانی خرابیاں بھی پیدا ہوئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانی میں موجود پلاسٹک کے باریک ذرات بھی جانوروں کو متاثر کرسکتے ہیں۔
ان سائنسدانوں نے چائے نوش افراد کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پلاسٹک ٹی بیگز استعمال کرنے سے مکمل اجتناب کریں۔
بتاتے چلیں کہ پاکستان میں پلاسٹک ٹی بیگز کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے برعکس، یہاں خاص طرح کے انتہائی باریک ٹشو پیپرز سے ٹی بیگز بنائے جاتے ہیں۔