حرا ایمن
شہر میں نت نئے ریستوران برساتی کھمبیوں کی مانند کھل رہے تھے۔ مشرق وسطیٰ سے بھیجی گئی دولت کی بدولت ہر پانچ کلومیٹر پر ایک پلازہ بن رہا تھا، کپڑوں جوتوں کے سب برینڈ شاپنگ اسکوائرز میں بن گئے، دیکھتے ہی دیکھتے شہر کی شکل ہی بدل گئی جیسے بدشکل سے بدشکل لڑکی شادی سے پہلے بناؤ سنگھار کر کے رنگ روپ نکال لیتی ہے تاکہ شریک حیات کو اپنا بہترین درشن دے سکے۔ یہ سب تیاریاں بھی شہر کے نو دولتیے طبقے کو اپنا بہترین دینے کے لئے تھیں۔
شہر کی مصروف ترین مارکیٹ میں ایک وکٹورین سٹائل کا ہوٹل کھلا جس کی تزئین وآرائش اور پکوان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ہفتوں میں ہی بکری اتنی ہوئی کہ دو ڈیڑھ سو سٹاف ہنگامی بنیادوں پر رکھا گیا۔ یوں پاس کی غریب بستی کے بیروزگار نوجوانوں کو معقول روزگار مل گیا، ویٹر، سویپر، گارڈ، باورچیوں کے مدد گار کے طور پر بہت سے ٹین ایجرز نے کام کرنا شروع کردیا۔ انہی نوجوانوں میں ایک دھان پان سا شاہزیب ملک بھی تھا۔ میٹرک کے بعد آوارہ پھرتا ہوا بڑی بڑی غلافی آنکھوں والا غریبوں کا وحید مراد۔
شاہزیب کی بوڑھی بیوہ ماں کپڑے سی سی کر بینائی کھو بیٹھی تھی اس لیے اب وہ بستر پر پڑی رہتی اور روکھا سوکھا جو بیٹا لے کر آتا، شکر کر کے کھاتی اور اس کو دعائیں دیتی۔ شاہزیب کی دنیا اُسکی ماں اور ایک کتا تھا۔ اس کتے کی ماں سڑک پر ایک حادثے میں مرگئی اور یوں وہ اس کو اٹھا کر گھر لے آیا۔ کتا بہت خوش مزاج تھا، سوکھی روٹی کھا کر بھی چہلیں کرتا اور جب تک شاہزیب گھر نا آ جاتا اُسکی ماں کو کمپنی دیتا۔ بطور ویٹر اس ریستوران میں اُسکا یہ دوسرا ہفتہ تھا، ان دنوں میں وہ بڑے لوگوں کے اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے کے آداب کا باریک بینی سے مشاہدہ کر چکا تھا۔
ریستوران کا ایک اصول تھا کہ جو کھانا ٹیبل پر لگ گیا اس کو چاہے چھوا بھی نا ہو وہ دوبارہ استعمال میں نہیں آئے گا بلکہ سیدھا کوڑے کے کنٹینر میں جائے گا، اس اصول کی سختی سے پاسداری کی جاتی۔ دو لڑکے صرف اس کام پر مامور تھے۔ شاہزیب جس نے بس دال روٹی اور سبزی کھا رکھی تھی، انواع اقسام کی عجیب عجیب پکوان دیکھ کر حیرت زدہ ہوتا، کوئی مہمان جب اس کو اطالوی یا چینی ڈش لانے کو کہتا تو آرڈر لیتے وقت وہ مینو میں بنی تصویر سے ہی ذائقہ کشید کرنے کی کوشش کرتا، کھانوں کو چکھنا اُسکی حسرت ہی رہی۔
ایک دفعہ رات گئے وہ ماں کی دوائی لینے نکلا، راستے میں ویسے ہی ریستوران پر نظر پڑی، کوڑے دان میں بلیوں نے اودھم مچا رکھا تھا، ان کو روز وافر مقدار میری یہاں من پسند اشیاء مل جاتی ہوں گی ، پاس ہی دروازے کے چوکیدار کی رائفل پڑی تھی، غالباً وہ بیت الخلاء گیا ہوا تھا، اشتیاق سے شاہزیب نے ریستوران کے شیشے سے بنے دروازے سے جھانک کر اندر دیکھا، دن میں سونے کی طرح چمکتا اندرون رات کو چاندنی کی طرح اجلا اجلا دکھ رہا تھا، انہی سوچوں میں غلطاں، چوکیدار کی کھانسی سے وہ چونکا اور پھرتی سے سڑک کی طرف چل پڑا۔
دل ہی دل میں اسنے شکر ادا کیا کہ چوکیدار کی نظر اس پر نا پڑی ورنہ نوکری بھی جانے کا احتمال تھا۔ چوکیدار نے آ کر اودھم مچاتی بلیوں کو رائفل لوڈ کر کے ڈرایا اور کرسی پر بیٹھ کر ریڈیو سننے لگا۔ اگلے دن شاہزیب کا دھیان کام پر نہیں تھا، غلطی سے اس نے دو گاہکوں کا آرڈر غلط لیا، اور حسب روایت وہ ضائع شدہ کھانے میں چلا گیا۔ ہوٹل کے مینیجر نے اس کو بہت سنائیں بھی جس سے وہ اور بد دل ہوگیا، شام پانچ بجے وہ طبیعت خراب ہونے کا بہانہ کر کے گھر کو چل دیا، روٹی بنا کر ماں کو دی اور خود رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
ساڑھے بارہ بجے وہ اپنے کتے کے ساتھ سیر پر نکلا اور آج قصداً وہ ریستوران سے ملحق کوڑے کے کنٹینرز کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ آج نا معلوم کیا وجہ تھی کوئی بلی کوڑے کے ڈھیر کے پاس نہیں تھی جیسے کتے کی آمد کو بھانپ گئی ہو۔ اس نے کتے کو کنٹینر کی راہ دکھائی، کتا چھلانگ لگا کر کوڑے میں کود پڑا کچھ دیر بعد اُسکی تمنات بھری آوازیں آنے لگیں تو شاہزیب خوشی سے نہال ہوگیا کہ یہ خیال اس کو پہلے کیوں نہیں آیا۔ اچانک اس کو صبح کے وہ آرڈر یاد آ گئے جو ضائع ہو گئے تھے، کچھ سوچ کر اس نے اپنے جوتے اتارے، اور ریستوران کی پچھلی دیوار کے قریب پہنچا جہاں ایک کھڑکی اس نے آج خود صبح کھلی چھوڑ دی تھی، بھنی ہوئی مچھلی کی تصویر سے اُسکے منہ میں پانی کا ایک سیلاب اُمڈ آیا جس کو پی کر اسنے کھڑکی تک پہنچنے کا راستہ بنایا، اس جگہ سے کچن کچھ دور تھا، ریستوران میں داخل ہوتے وقت کوئی دقت نا ہوئی مگر ابھی وہ اندھیرے میں راستہ ڈھونڈھ ہی رہا تھا کہ اُسکا ہاتھ لگ کر شیشے کا ایک قیمتی برتن زور سے گرا اور کچھ سیکنڈز بعد ہی چوکیدار کی سیٹی کی آواز آئی، کتا بھی بھونکنے لگا، گھبراہٹ میں شاہزیب کچن تک پہنچا، فریج کھولا تو وہ بھرا پڑا تھا، دل ہی دل میں وہ مالک کو کوسنے لگا جو کھانا ضائع کرنے کی بجائے ان کو ساتھ لے جانے کیوں نہیں دیتا، شاید بڑے لوگوں کے معیارات بڑے اور دل بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔
انہی سوچوں میں گم تھا کہ پھر اُسکا ہاتھ پھسلا اور قریب پڑا گلاس ٹیبل سے سرک گیا، چند ہی لمحوں بعد دروازوں کے کھلنے کی آواز آئی، اس سے پہلے کہ شاہزیب اپنا بچاؤ کرتا، چوکیدار نے چور چور کا شور مچاتے ہوئے رائفل اسپر تانی، شاہزیب نے بھاگنے کی جو کوشش کی رائفل سے ایک گولی سیدھی اُسکی کمر میں لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اگلے دن جب شاہزیب کی لاش کی شناخت ہوئی تو شکر ادا کیا گیا کہ ایک چور کیفر کردار کو پہنچا، مزید برآں چوکیدار کی بہادری اور فرض شناسی سے متاثر ہو کر ریستوران کے مالک نے اُسکی ترقی بطور ویٹر کردی اور چوکیداری پر شاہزیب کے کتے کو مامور کردیا۔