نوشی بٹ
آداب امید ہے آپ کے مزاج بخیر ہوں گے۔ معذرت چاہتی ہوں کہ میری بیماری اور ذاتی مصروفیات کی وجہ سے خط لیٹ ہو گیا۔ پچھلے سوال پہ تو خوب ہاہا کار مچ گئی تھی۔ یہاں تک کہ سوال کی اہمیت پہ بھی سوال اٹھا دیے گئے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ اگر کسی ایک انسان کو بھی کسی ایسی صورت حال سے گزرنا پڑے جو عام نہیں ہیں۔ تو سوال کرنا تو بنتا ہے ناں!
ہمیں مسائل کے حل تب ہی ملتے ہیں جب ہم سوال کرتے ہیں۔ اور سوال کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ آج کا میرا سوال بھی کچھ چبھتا ہوا اور بولڈ ہے۔ مگر بہرحال زمانے میں اپنا وجود رکھتا ہے۔
ہم نے مرد کے لیے تو معاشرے میں بہت سی آسانیاں کر رکھی ہیں۔ لیکن عورت کے لیے معاشرے میں رہنے کے بہت سے معیار اور سانچے طے کر دیے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے سماج کی عورت اس سانچے پہ پورا اترے۔ اور ہمارے طے کردہ معیار سے سوتر کا بھی فرق نہ رکھے۔ شادی سے پہلے والد پہ ڈیپینڈینٹ بیٹی شادی کے بعد شوہر کے تابع ہو جاتی ہے۔ یہاں پہ بات وہی آ جاتی ہے کہ عورت کا معاشی ترقی اور خودمختاری کے بغیر سروائیول مشکل تر ہے۔
لیکن یہ بات نہ تو والدین سمجھاتے ہیں۔ نہ ہی اس بات کی بابت کسی سکول کالج یا یونیورسٹی میں سکھایا جاتا ہے۔ آج بھی بہت سے لڑکیاں مٹی کی مادھو بن کے زندگی گزارتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جہاں مرد کو زندگی کے کئی معاملات میں چھوٹ حاصل ہے، جیسے سیکس کی آزادی، شادیوں کی آزادی۔ حتی کہ مرد کے ایکسٹرا میریٹل افئیرز پہ بھی لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ مرد جو ہوا۔ ایسے مرد کی بیوی کو صبر کی تلقین کی جاتی ہے۔ کہ کوئی بات نہیں واپس تو گھر ہی آتا ہے ناں۔
بھئی ایسی بات کبھی عورت کے لیے کیوں نہیں سوچی جا سکتی کہ واپس تو گھر ہی آتی ہے ناں۔ خیر سوال یہ ہے کہ مرد تو جب چاہے بیوی کے ساتھ یا جس کے ساتھ بھی چاہے سیکس کرنے کا کہہ کے سیکس کر لیتا ہے۔ لیکن عورت اپنے منہ سے سیکس کرنے کا کہے تو اسے فاحشہ، آوارہ اور بے شرم کیوں کہا جاتا ہے۔ عورت کے سیکس کی ڈیمانڈ کرنے پہ اسے دیدے پھاڑ کے کیوں دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ جب سیکس کی ڈیمانڈ کرنے پہ مرد کو آوارہ اور بے شرم نہیں کہا جاتا تو عورت کو کیوں؟
سیکس کی بھوک مرد و عورت دونوں کو برابر ہو سکتی ہے۔ لیکن اس بھوک کا اظہار کرنے پہ جہاں مرد کو آزادی حاصل ہے وہیں عورت ذلیل کیوں۔ میں جانتی ہوں اس سوال پہ لوگ بیسیوں باتیں بنائیں گے لیکن کیا لوگوں کے باتیں بنانے کے ڈر سے ہم سوال اٹھانا چھوڑ دیں۔ ہم سماج کے پسے ہوئے طبقے یعنی عورت (مجموعی طور پہ زیادہ تر عورتیں سماج کے ظلم کا شکار ہی ہیں ) کی خواہشات اور نفسیات پہ بات کرنا بند کر دیں؟ میں نے کئی ایسی خواتین سے خود سنا ہے کہ ہم تو اپنے منہ سے سیکس کا لفظ بھی نہیں نکال سکتے۔
کہ ہم پہ بے شرمی کا الزام نہ لگ جائے۔ جن لوگوں نے ارتھ فلم دیکھی ہے اس میں ریکھا اور اوم پوری کے سیکس سین کے بعد جب اوم پوری ریکھا سے پوچھتا ہے تم نے یہ سب کہاں سے سیکھا تو ریکھا جواب میں کہتی ہے اپنی دوست سے۔ کیوں کیا اچھا نہیں لگا۔ اوم پوری کا جواب ہمارے سماج کے مردوں کا جواب ہے کہ “اچھا لگا لیکن آئندہ تم اس دوست سے نہیں ملو گی”۔ میں اس سوال پہ آپ کے جواب کی منتظر رہوں گی۔ اگلے چبھتے ہوئے سوال تک اجازت چاہوں گی۔ اپنا ڈھیروں خیال رکھیں۔ آپ کی دوست نوشی بٹ 3۔ اکتوبر۔ 2019
تسلیمات!
یہ آپ کا چوتھا خط ہے جو ہم ’مردوں‘ کے لیے پہلے سے زیادہ چبھن لیے ہوئے ہے۔ گہری نیند میں سوئے ہوئے بندے کو جگایا جائے تو غصہ آنا ایک فطری امر ہے۔ سو آپ کے خطوں میں اٹھائے گئے سوال ایسے ہی ہیں۔ اور ہاں یہ بھی کہ اس بات میں مجھے کوئی مغالطہ نہیں کہ پچھلا سوال کسی محدود اقلیت سے نہیں بلکہ گھُٹے اوربندھے ہوئے سماج کے مردوں کی ایک بڑی اکثریت سے متعلق تھا جو بات سمجھنے کی بجائے مردانہ کمزوری کے الفاظ سن کر بِدک جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے اس موضوع پر ہمیں ایک بار پھر سے لکھنا ہوگا تاکہ یہ بات باور کروائی جاسکے کہ مردانہ کمزوری اصل میں جسمانی کی بجائے ذہنی مسئلہ ہے جس کی جڑ میاں بیوی کے سماجی تعلق کی ساخت میں ہے جس میں مروجہ معاشی نظام ایک لازمے کی حیثیت رکھتاہے۔
اگر اجازت دو تو پہلے کچھ باتیں ہمارے سماج کے مردوں کے بارے میں کر لی جائیں جو مردانگی کے غرور سے بھرے پھرتے ہیں۔ یہاں کسی ستر برس کے بوڑھے سے بھی بات کرکے دیکھو تو وہ یہی دعویٰ کرے گا کہ بستر کے معاملے میں وہ اب بھی کسی رستمِ زماں سے کم نہیں جبکہ کون نہیں جانتا کہ شبِ زفاف میں پہلی بار عورت کا سامنا کرنے والے کڑیل جوان بھی کس عذاب سے دوچار ہوتے ہیں اور کس کس سے کون کو ن سے نسخے پوچھ رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ اصل بات کی جانب کوئی دھیان ہی نہیں ڈلواتا۔
ہم جب تک عورت مرد کے درمیان بے جا دیواریں کھڑی کیے رکھیں گے، معاملات جوں کے توں رہیں گے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ دونوں کی تربیت میں صنفی امتیاز کی سوچ کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیا جائے۔ انہیں صدقِ دل سے انسان مان کر تعلیم اور زندگی کے کسی بھی شعبے کو منتخب کرنے کا حق بلا تخصیص تسلیم لیا جائے۔ اب جب دونوں اصناف کو سکول سے جاب تک ایک دوسرے کو اعتماد کے ساتھ سمجھنے کا موقع ملے گا تو وہ زندگی کے ساتھی کا چناؤ والدین کے مقابلے میں کہیں بہتر انداز میں کرنے کے قابل ہوں گے۔ اور اس کے باوجود بھی اگر بوجوہ ان کا انتخاب غلط ہوگا تو مہذب اور ذمہ دار افراد کی طرح ایک دوسرے سے علیحدہ ہوکر کوئی نیا رشتہ بنالیں گے جس میں وہ کم از کم پہلے والی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔
عورت پر مسلط خاموشی کی عادت یا مجبوری سے متعلق جن مسائل کی طرف آپ نے اشارہ کیا جیسے کہ انھیں مردوں کے مقابلے میں اپنی جسمانی خواہش اظہار کرنے میں آسانی دستیاب نہیں، تو اس مسئلے کا تعلق ہماری ناقابلِ عمل اخلاقیات سے ہے جس کی ذمہ داری سماج کے بعد سب سے زیادہ والدین پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں فرد کی جنسی ضروریات کے حوالے سے شدید کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ ہم جسم سے متعلق کسی بیماری سے لے کر کھانے تک ہر ضرورت اور خواہش کو بلا روک ٹوک ڈسکس کرسکتے ہیں سوائے سیکس کے۔