( پاکستان، ترکی اور ملائیشیا اسلامی فوبیا کی لہر روکنے کے لیے ایک مشترکہ انگریزی ٹی وی چینل قائم کریں گے )۔
اپریل چھ سو سینتیس عیسوی کے ایک دن ابو عبیدہ بن جراح کے طویل محاصرے سے تنگ آ کر بازنطینی یروشلم کے عمائدین نے شہر کے دروازے اس شرط پے کھولنا منظور کیا کہ خلیفہ عمر بن خطاب کے سامنے ہتھیار ڈالیں گے۔ چنانچہ خلیفہِ راشد مدینہ سے یروشلم پہنچے اور شہر میں یوں داخل ہوئے کہ اونٹ کے کجاوے پر خادم تھا اور خلیفہِ ثانی مہار پکڑے چل رہے تھے۔
اپریل چھ سو سینتیس عیسوی کے ایک دن ابو عبیدہ بن جراح کے طویل محاصرے سے تنگ آ کر بازنطینی یروشلم کے عمائدین نے شہر کے دروازے اس شرط پے کھولنا منظور کیا کہ خلیفہ عمر بن خطاب کے سامنے ہتھیار ڈالیں گے۔ چنانچہ خلیفہِ راشد مدینہ سے یروشلم پہنچے اور شہر میں یوں داخل ہوئے کہ اونٹ کے کجاوے پر خادم تھا اور خلیفہِ ثانی مہار پکڑے چل رہے تھے۔
ظہر کا وقت ہوا تو پادری سوفرونیئس نے خلیفہ سے کہا کہ نوتعمیرشدہ گرجے میں نماز ادا کرلیجیے۔ خلیفہ نے کہا اگر میں نے ایسا کیا تو ڈر ہے کہ اسے نظیر بنا کر میرے بعد آنے والے اسے مسجد نہ بنا لیں۔ اور پھر گرجے کی سیڑھیوں پر نماز ادا کی۔
بعد ازاں سوفرونیئس اور یہودی کاہنوں کے ہمراہ ہیکلِ سلمانی کی طرف گئے جہاں جھاڑ جھنکار اور اینٹوں پتھروں کے انبار دیکھ کے خلیفہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے پتھر اٹھا کر ایک طرف رکھنے شروع کردیے۔ جب دسویں روز خلیفہ شہر سے رخصت ہوئے تو ہیکل کا علاقہ شیشے کی طرح چمک رہا تھا کیونکہ پانچ سو برس بعد یہودیوں کو یروشلم میں دوبارہ بسنا اور عبادت کرنا نصیب ہوا۔ مدینہ روانگی سے قبل خلیفہ نے حکم دیا کہ شہر کا نظم و نسق عمائدین کے مشورے سے چلایا جائے اور سرکاری خط و کتابت کے لیے حسبِ سابق لاطینی زبان ہی رکھی جائے ( اگلے پچاس برس تک اسی حکم پر عمل ہوتا رہا ) ۔
چھ سو سینتیس میں ہی جنگِ جلولہ کے بعد موجودہ عراق کے شہر تکریت اور موصل کو عرب افواج نے ساسانیوں سے چھین لیا۔ مگر کسی معبد یا بت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ نہ ہی تب سے جون دو ہزار چودہ عیسوی تک موصل کے عین پچھواڑے میں تین ہزار برس سے منہ تکتے نینوا، نمرود اور ہترا کے آشوری کفر کے کھنڈرات کسی کی نگاہوں میں کھٹکے۔
جنگِ یرموک کے نتیجے میں بلادِ شام (اردن، سیریا، لبنان، فلسطین) کا پورا علاقہ بازنطینی سلطنت سے چھن گیا اور کچھ عرصے بعد دمشق پہلی اموی عرب بادشاہت کا صدر مقام ہوگیا۔ اور پھر اناطولیہ کا علاقہ بھی ہاتھ آگیا۔ مگر امیرِ معاویہ سے آخری عثمانی سلطان عبدالحمید تک کسی کو خیال نہ آیا کہ پیٹرا سے بعلبک، طائر اور ٹرائے تک پھیلی یونانی و رومن و بازنطینی تہذیب کے محلات، قلعے، کھنڈرات اور مجسمے مسلمانوں کی مسلمانی کو آلودہِ شرک بھی کرسکتے ہیں۔
خلافتِ راشدہ سے اب تک جانے کتنے لشکر نجد و حجاز سے اٹھ کے براستہ اردن نئی دنیائیں فتح کرنے روانہ ہوئے مگر ان میں شامل کسی ایک کو بھی خیال کیوں نہ آیا کہ راستے میں پڑنے والی عذاب یافتہ قومِ ثمود کے پہاڑ کاٹ کے بنائے جانے والے قطار در قطار سلامت سنگی گھروں اور خانقاہوں کی اینٹ سے اینٹ بجاتا ثواب کی دولت سے مالا مال ہوتا چلا جائے۔
سن چھ سو اکتالیس میں سعد بن ابی وقاص کا لشکر بازنطینی صوبے مصر میں داخل ہوا تو قبطی عیسائیوں کو اپنا روزمرہ نظم و نسق حسبِ سابق چلانے کی اجازت برقرار رہی۔ تھیبس کے دورِ فرعونی کے شاندار قبرستان کی ایک اینٹ کو بھی کسی نے ہاتھ نہیں لگایا نہ لگانے دیا۔
صحرائے سینا میں سینٹ کھیترین کی اونچی پہاڑی خانقاہ میں ایک دن بھی عبادت نہ رکی نہ روکی گئی۔ فرعونوں کے اہرام کے سنگی محافظ ابو الہول کی ناک بھی برقرار رہی۔ مورخ المقریزی لکھتا ہے کہ تیرہ سو اٹھتر میں ایک مقامی عالم محمد صائم الظاہر کے کہنے پر ابوالہول کی ناک توڑ دی گئی کیونکہ اردگرد کے دہقان اچھی فصل کے لیے ابوالہول کے سائے میں سالانہ میلہ کرتے تھے۔ مملوک حاکم نے محمد صائم کو ریاستی املاک کو نقصان پہنچانے کے جرم میں موت کی سزا سنا دی۔
خسرو نے جب رسول اللہ کا دعوتی خط پھاڑ ڈالا تو رسولِ اکرم نے بس اتنا کہا ”تیری سلطنت بھی ایسے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوگی“۔ چھ سو پچپن عیسوی تک جب پوری ساسانی سلطنت عربوں کے زیرِ نگین آگئی اور خسرو کا مفرور بیٹا قتل ہوگیا تو دوسرے خلیفہِ راشد کے حکم کے مطابق فارسی کو روزمرہ زبان کے طور پر برقرار رکھا گیا۔ آتش پرست بادشاہوں کے دارالحکومت تختِ جمشید کے مرمریں ستون ہوں، کہ داراِ اعظم کا مقبرہ، کہ کرمان شاہ کے کوہِ بے ستون پر کھدی دو ہزار برس پرانی شاہی شبیہیں۔ حضرت عمر ابنِ خطاب سے لے کر علی خامنہ ای کی حکومت تک کسی نے نہیں سوچا کہ شرک کی ان نشانیوں سے زمین کو پاک کردیا جائے۔
چھ سو اکیاون میں احنف بن قیس کے دستوں نے موجودہ افغانستان سمیت ولائیتِ خراسان کو دریائے آکسس تک روند ڈالا۔ پھر قتیبہ بن مسلم کی افواج وسطیٰ ایشیا تک پہنچ گئیں۔ بارہ سو اکیس میں چنگیز خان کے دستوں نے افغانستان کو الٹ پلٹ دیا۔ سلطان محمود کو غزنی میں بیٹھ کے ہزاروں میل دور سومناتھ نظر آگیا مگر بامیان کے پہاڑ میں ایستادہ ڈیڑھ ڈیڑھ سو فٹ سے زائد اونچے بدھا کے مجسموں پر اگر تیرہ سو برس میں کسی کی ایمانی نگاہ پڑی تو طالبان کی۔
مجھے تو اورنگ زیب کی مسلمانیت پر بھی شک ہو چلا ہے جس نے ٹیکسلا، اجنتا و ایلورا کے غاروں اور ان کے اندر کی دس ہزار برس پرانی انسانی تصاویر، کھجراؤ کے پچاسی فحش مورتیوں والے ایمان شکن مندروں، بودھ گیا کے مہا بودھی مندر جیسی کفر و شرک کی لاتعداد نشانیوں کو بخش دیا۔ اشوک کی لاٹیں تک اسے کابل تا دکن اور بنگال تا سندھ اپنی شرعی سلطنت میں دکھائی نہ پڑیں۔ دلی سات بار اجڑی مگر قطب مینار یونہی کھڑا ہے اور تاج محل زمین کے سینے پر اب بھی مونگ دل رہا ہے۔ (حالانکہ اس محل کے خالق شاہ جہاں کو اورنگ زیب نے نہیں بخشا) ۔
مگر اب چند برس سے کچھ امید بندھی ہے جب طالبان اور پھر داعش اور پھر سندھ اور پنجاب میں مقامی جوشیلوں نے اور پھر بھارت میں از قسم ِ بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد نے ارضِ خدا و بھگوان کی دھرتی کو پاک و پوتر کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔ یہ وہ ہیں جو کسی بھی عظیم مسلمان سے زیادہ مسلمان اور رام جی سے بڑے ہندو ہیں۔
کاش محض یہ کہنے سے ہی بات بن جائے کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو ایسا سوچتے ہیں۔ ان سے ہمارا بھلا کیا لینا دینا؟ اگر یہ واقعی مٹھی بھر ہیں تو اب تک راست گوؤں کے سمندر میں کیوں پھل پھول رہے ہیں؟ اس کا مطلب ہے کہ یہ مٹھی بھر لوگ نہیں یا پھر اکثریت بھیڑوں کی ہے کہ جنھیں کوئی بھی ایک گڈریا جہاں چاہے ہنکال لے جائے۔ کاش میں غلط سوچ رہا ہوں۔
بشکریہ ایکسپریس۔
بشکریہ ایکسپریس۔