علم اور شعور کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم اور ملزوم ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ علم اگر سمندر ہے تو شعور اس میں چھپے موتی کی طرح ہے۔ انسان جیسے جیسے اس سمندر میں اترتا ہے شعور کے موتی چننے لگتا ہے اور اپنا دامن بیش بہا انمول موتیوں سے بھر لیتا ہے۔ مگر جیسے جیسے وقت اور زمانہ بدل رہا ہے یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی متضاد ہوتی جارہی ہیں۔ کیونکہ ہم نے علم کو ڈگریون کے تابع کر دیا ہے۔ جس کی جتنی بڑی ڈگری وہ اتنا ہی عالم فاضل۔
اگر ڈگری کا اردو ترجمہ کریں تو اس کے معنیٰ ہیں پیمانہ۔ پیمانہ تو ان چیزوں کے لئے ہوتا ہے جو کہ محدود ہوں جب کہ علم تو ایک لامحدود سمندر ہے تو اس کے لئے پیمانے کی
کیا ضرورت۔ اور اب جب پیمانہ طے ہو ہی گیا ہے تو تمام انسانیت اس دوڑ میں لگ گئی ہے۔
شعور، تربیت، عمل۔ یہ سب کہیں پیچھے رہ گئے ہیں اور انسانیت کھوتی جا رہی ہے۔ دیکھنے والے کو نذر یہ اتا ہے کہ ایک دوڑ ہے جس میں سب اندھا دھند بھاگ رہے ہیں۔ نہ بڑوں کا ادب و احترام رہا ہے اور نہ چھوٹوں سے محبت و شفقت کا جذبہ رہا ہے۔ کچھ تربیت کا فقدان اور کچھ اس بڑھتے ہوئے معاشرتی ہیجان کی وجہ سے طلبہ و طالبات اپنے اساتذہ اکرام کا احترام بھولتے جا رہے ہیں۔ جب دلوں سے ادب اور عزت ہی ختم ہوگئی تو کیسے علم حاصل ہوگا اور ہم کیسے ہماری نسلوں کو پروان چڑھائیں گے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ۔
، با ادب با نصیب ”
”بے ادب بے نصیب
آج کل اکثر ہم خبروں میں سنتے ہیں کہ استادوں کے بے دردی سے مارنے سے کوئی معصوم بچہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور کہیں وہشیانہ تشدد کا نشانہ بننے سے ہسپتال میں داخل ہے اور یہ بھی کہ بچہ استاد کے ڈر سے اسکول نہ جانے پر مصر ہے۔ ان بچوں کے یہ ظاہری زخم تو شاید مندمل ہو جائیں اور شاید اللہ تعالیٰ ان ماں باپ کو تو صبر بھی عطا کردیں مگر روح پر لگے زخم، معاشرے میں بڑھتی ہیجانی سوچ اور منفی رویہ کبھی ختم نہ ہوگا
جب علم بانٹنے والے ہی اس سے دوری پیدا کرنے کا سبب بن جائیں گے اور جب ڈگریوں کے پیچھے بھاگنے والے ہی استاد کا روپ دھار لیں کے تو معاشرے میں ایسے ہی ناسور پھیلیں گے۔ انسان نہیں صرف علم و عقل سے عاری لوگ ہی پیدا ہوں گے جو پورے ملک و قوم کے لئے صرف تباہی کا باعث ہوں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرض کی تشخیص کر کے ہم اس کا علاج کریں۔ اگرچہ مرض بہت بڑھ چکا ہے مگر ہم ابتدا کرکے پہلا قطرہ تو بن سکتے ہیں اس سدھار کا۔ اپنی سی کوشش کر کے اپنے اپنے بچوں کو یہ سمجھا سکتے ہیں کہ علم بنا شعور کے بے کار بلکہ نقصان دہ ہے۔
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا ”
”سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا