شادی شدہ جوڑے کا ہنی مون پر جانا اور تصاویر بنانا کوئی انوکھی بات نہیں لیکن ان تصاویر پر بھونچال جیسی صورتحال پیدا ہو جانا اور واویلا مچ جانا کم ہی ہوتا ہے۔
کچھ ایسا ہی پاکستانی اداکارہ منال خان کے ساتھ ہوا جب وہ اپنے شوہر احسن محسن اکرام کے ساتھ ہنی مون پر مالدیپ گئیں اور انھوں نے اپنے انسٹاگرام پر ان خوبصورت لمحات کی چند تصاویر شیئر کیں۔
یہ تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے کی دیر تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے منال خان کا نام ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے لگا اور ’ٹرول بریگیڈ‘ نے نہ صرف اُن کے لباس پر سوال اٹھانے شروع کر دیے بلکہ کچھ صارفین نے ان کی مختلف میمز بنا کر اپنے تئیں منال کو تضحیک کا نشانہ بنانے کی کوشش بھی کی۔
کسی نے منال خان کے شوہر احسن محسن کو غیرت کا درس دیا تو کسی نے منال کو مشرقی اور مذہبی روایات کی یاد دہانی کروائی۔
اس حد سے زیادہ ٹرولنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ منال خان نے اپنے انسٹا گرام سے وہ تصویر ہی ڈیلیٹ کر دی جس پر تنقید کی جا رہی تھی تاہم ان کے شوہر اپنی اہلیہ کے دفاع میں سامنے آئے اور ان کے انسٹا اکاؤنٹ پر یہ تصویر اب بھی موجود ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر ایک بحث ضرور شروع ہو گئی کہ آخر لوگ کبھی عورت کے لباس سے باہر نکل کر بھی سوچ سکتے ہیں یا نہیں؟
احسن محسن نے ایک صارف کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’میں ایک لبرل پاکستان کا تصور رکھتا ہوں جہاں خواتین کو اپنے فیصلے آپ لینے کی اجازت ہو اور ان کے فیصلے ان کے شوہر، بھائی یا والد کے کنٹرول میں نہ ہوں۔۔۔‘
ادکارہ اور مارننگ شو کی میزبان سحر شنواری نے لکھا: ’منال خان کے لباس پر بیہودہ تبصرے کرنا اتنا ہی غلط ہے جتنا پرویز ہودبھائی کا برقعے سے نفرت کا اظہار کرنا تھا۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’آخر عورت کو یہ معاشرہ اپنی مرضی سے جینے کیوں نہیں دیتا؟ وہ (منال) ننگی ٹانگیں دکھائے یا ٹوپی والا برقعہ پہنے یہ اس کی مرضی ہونی چاہیے نہ کہ لبرل اور قدامت پسندوں کی۔‘
واضح رہے کہ پرویز ہودبھائی ایک استاد اور سماجی کارکن ہیں جنھیں پاکستانی ٹاک شوز میں اکثر لبرل یا آزاد خیال طبقے کی ترجمانی کے لیے سماجی اور تعلیمی مسائل کے بارے میں بات کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔
کچھ دن پہلے انھوں نے ایک پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے سنہ 1973 سے پڑھانا شروع کیا، اُس وقت آپ کو بمشکل ایک لڑکی برقعے میں دکھائی دیتی تھی، اب تو حجاب، برقعہ عام ہو گیا ہے۔ آپ کو ’نارمل لڑکی‘ تو شاز و نادر ہی ادھر نظر آتی ہے۔ جب وہ کلاس میں بیٹھتیں ہیں برقعے میں حجاب میں لپٹی ہوئی تو ان کی کلاس میں شمولیت بہت گھٹ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کلاس میں ہیں کہ نہیں۔‘
سید علی عابدی نے منال کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’لوگ منال کی تصویر پر حواس باختہ ہو رہے ہیں، میرے خیال میں لباس کسی شخص کی انتہائی ذاتی چوائس ہوتی ہے۔‘
نگاہ شاہ نے لکھا: ’ کیا ہمارے ملک میں لوگ کبھی عورت کے لباس سے باہر نکل کر بھی سوچ سکتے ہیں۔‘
محمد حسیب نے لکھا: ’بہت مضحکہ خیز ہے کہ یہ قوم ایک عورت کے لباس کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے جبکہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہے۔ پلیز انھیں چھوڑ دیں، یہ ان کی زندگی ہے اور یہ ان پر چھوڑ دیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔‘
پلوشہ خٹک نے لکھا: ’کیا آپ کو منال خان کے لباس سے مسئلہ ہے یا اس بات سے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اتنے رومانوی ہنی مون پر گئیں۔‘
انھوں نے ٹرولنگ کرنے والوں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مزید لکھا: ’یا آپ کو اس سے مسئلہ ہے کہ آپ کبھی منال کے شوہر جیسے نہیں دکھ سکتے۔‘
بہت سے لوگوں نے منال خان کا ساتھ دیتے ہوئے اس ٹرولنگ کو روکنے کی درخواست بھی کی۔
ایک صارف نے لکھا: ’منال کے ذاتی معاملات پر یہ تنقید بہت زیادہ غیر ضروری ہے۔ پلیز اسے بس کریں، یہ واقعی بہت زیادہ ہے۔‘
ایمن نامی ایک صارف نے لکھا: ’ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کے مرضی لباس پہنے۔ ہمیں اس پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ اگر وہ حجاب پہننا یا نہیں پہننا چاہتیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔ آپ ان پر اس کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکتے۔ یہ ان کی زندگی اور ان کی مرضی ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’منال کی ٹرولنگ بند کی جائے۔ آپ اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں۔‘
ایک اور صارف نے لکھا: ’پاکستانی لوگ ایسے ردعمل دے رہے ہیں جیسے منال کی تصاویر شیئر کرنے سے پہلے ٹانگوں کا وجود ہی نہیں تھا۔‘
زویا شبیر نے لکھا: ’مریم نواز کے کپڑوں اور سٹائل پر ان کے پارٹی ورکرز کی تعریف پر ہونے والی تنقید مکمل طور پر مضحکہ خیز ہے۔ انھیں اپنی مرضی سے تیار ہونے کا مکمل حق حاصل ہے اور انھیں پسند کرنے والے لوگوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان کی تعریف کریں اور اس کا اظہار کریں۔‘
زویا نے مزید لکھا: ’ٹوئٹر پر منال خان کے بارے میں غصہ بے کار اور واضح طور پر عورت کے خلاف تعصب کو ظاہر کرتا ہے۔‘
انھوں نے سوال کیا کہ ’مرد جب چھٹیاں گزرانے جاتے ہیں تو ساحل سمندر پر شرٹ کے بغیر تصویر لگواتے ہیں لیکن اس سے ہماری قوم کے جذبات مجروح نہیں ہوتے۔ ایسا کیوں ہے؟‘
یاد رہے کہ ایک ہفتہ قبل پاکستان مسلم لیگ نون کی رہنما حنا پرویز بٹ نے مریم نواز کی ایک تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے اس کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’سٹائل کوئین مریم نواز۔‘
ان کی اس ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے صحافی عامر متین نے انھیں جتایا کہ گویا وہ مریم نواز کی ’ماڈلنگ کی تصاویر‘ اپ لوڈ کر کے ان کی تشہیر کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ ایسے چاپلوسی والے الفاظ ملکہ، شہزادی کا استعمال کر کے مریم نواز کی اچھی تشہیر کر رہی ہیں۔ آپ کو ان کی سیاسی ذہانت، عقل کو ان کے برانڈڈ کپڑوں، جوتوں وغیرہ سے زیادہ فروغ دینا چاہیے۔‘