عاتکہ سلمان “اماں جانے دو ناں علی بھی تو جاتا ہے اس کو تو نہیں روکتی” انعم نے منہ بسورا۔ “اس کی بات اور ہے” نجمہ نے بے رخی سے کہا “وہ لڑکا ہے”۔ “ہاں بس اسی کی اماں ہو میری تو ایک نہیں مانتی” انعم نے منہ پھلا لیا۔ علی جو اس سے سال بھر ہی بڑا تھا تھا اسے اداس نہیں دیکھ سکا بہت چاہتا تھا اسے اور کیوں نہ چاہتا ایک ہی تو بہن تھی اس کی پیاری سی منی۔ “تیرے باپ کو خبر ہوئی ناں تو تیرے ساتھ ساتھ میری بھی ٹانگیں توڑ ڈالے گا” اس نے صغیر کا کہہ کے دھمکایا مگر بچوں کی ضد کے آگے ہار مان گئی اور جلدی واپس آنے کی تاکید کرتے ہوئے اجازت دے دی۔…
نواب صاحب نوکر خانے سے جھومتے جھامتے نکلے تو اصلی چنبیلی کے تیل کی خوشبو سے ان کا سارا بدن مہکا جا رہا تھا۔ اپنے شاندار کمرے کی بے پناہ شاندار مسہری پر آ کر وہ دھپ سے گرے تو سارا کمرہ معطر ہو گیا…. پاشا دولہن نے ناک اٹھا کر فضا میں کچھ سونگھتے ہی خطرہ محسوس کیا۔ اگلے ہی لمحے وہ نواب صاحب کے پاس پہنچ چکی تھیں …. سراپا انگارہ بنی ہوئی۔ ’’سچی سچی بول دیو، آپ کاں سے آرئیں …. جھوٹ بولنے کی کوشش نکو کرو….‘‘ نواب صاحب ایک شاندار ہنسی ہنسے۔ ’’ہمنا جھوٹ بولنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ جو تمے سمجھے وہ ہیچ سچ ہے۔‘‘ ’’گل بدن کے پاس سے آرئیں نا آپ؟‘‘ ’’معلوم ہے…
ڈاکٹر رتھ فاو / منیرفراز اس کی آنکھیں نیلی تھیں اور ان نیلی آنکھوں نے سیب اور چیری کے باغات کے علاوہ پندرہ برس کی عمر میں دو خون آشام ہجرتیں دیکھی تھیں ۔ پہلی، جب ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کیا اور دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا، اسے اپنے والدین کے ہمراہ اپنا شہر چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا ۔ اور دوسری ہجرت، جب یہ جنگ ختم ہوئی تو اسے اپنے والدین ہی کے ہمراہ مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی آنا پڑا ۔ تیسری ہجرت اس نے خود کی جب وہ ڈاکٹر بن چکی تھی اور اس کی عمر اکتیس برس تھی۔ پاولو کوئلہو کا شہرہ آفاق ناول " الکیمسٹ " کس کو یاد …
Social Plugin