عصمت چغتائی جب صبح ہی صبح جھکی ہوئی نظروں سے ماتھے پر ذرا سا آنچل کھینچ کر حلیمہ نے بیگم کو سلام کیا تو ان کی باچھیں کھل گئیں، خیر سے صاحبزادے کی طرف سے جو جان کو دھگدا لگا ہوا تھا۔ وہ تو دور ہوا۔ فورا دریائے سخاوت میں ابال آگیا چھ جوڑے جو اسی مبارک موقعے کے لیے تیار رکھے تھے۔ عنایت ہوئے۔ ہاتھوں میں نوگریاں، گلے میں ٹھسی اور طلائی ایران، جو صنوبر کی موت کے بعد چھوٹے میاں کی باندی کے لیے سینت لیے گئے تھے اپنے ہاتھ سے بیگم نے دے دیے تیل، پھلیل، سرمہ، مسی اور اب تو نگوڑے پاؤڈر کا بھی فیشن چل گیا ہے۔ سب ہی کچھ مہیا کیا گیا صاحبزادے کو رنڈی میں…
سعادت حسن منٹو کا اقتباس اس خاکہ کے بارے میں ’’ساقی‘‘ میں ’’دوزخی‘‘ چھپا۔ میری بہن نے پڑھا اور مجھ سے کہا۔’’سعادت! یہ عصمت کتنی بے ہودہ ہے۔ اپنے موئے بھائی کو بھی نہیں چھوڑا کم بخت نے۔ کیسی کیسی فضول باتیں لکھی ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔’’ اقبال اگر میری موت پر تم ایسا ہی مضمون لکھنے کا وعدہ کرو۔ تو خدا کی قسم میں آج مرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ شاہجہان نے اپنی محبوبہ کی یاد قائم رکھنے کیلئے تاج محل بنوایا۔ عصمت نے اپنے محبوب بھائی کی یاد میں’’دوزخی‘‘ لکھا۔ شاہجہان نے دوسروں سے پتھر اٹھوائے۔ انہیں ترشوایا اور اپنی محبوبہ کی لاش پر عظیم الشان عمارت تع…
Social Plugin