جب صبح ہی صبح جھکی ہوئی نظروں سے ماتھے پر ذرا سا آنچل کھینچ کر حلیمہ نے بیگم کو سلام کیا تو ان کی باچھیں کھل گئیں، خیر سے صاحبزادے کی طرف سے جو جان کو دھگدا لگا ہوا تھا۔ وہ تو دور ہوا۔ فورا دریائے سخاوت میں ابال آگیا چھ جوڑے جو اسی مبارک موقعے کے لیے تیار رکھے تھے۔ عنایت ہوئے۔ ہاتھوں میں نوگریاں، گلے میں ٹھسی اور طلائی ایران، جو صنوبر کی موت کے بعد چھوٹے میاں کی باندی کے لیے سینت لیے گئے تھے اپنے ہاتھ سے بیگم نے دے دیے تیل، پھلیل، سرمہ، مسی اور اب تو نگوڑے پاؤڈر کا بھی فیشن چل گیا ہے۔ سب ہی کچھ مہیا کیا گیا صاحبزادے کو رنڈی میں بیگم کا مزہ ملنا چاہیے۔ باجرے کی روٹی بھی اگرچہ گھی سے کھائی جائے تو پراٹھوں کا لطف دیتی ہے۔
منہارن بی نے سرخ سبز چوڑیاں پہنائیں، غریب حلیمہ گھٹنوں میں سردیے بیٹھی رہی۔ منہارن بی کی گندی گندی دعاؤں پر پانی پانی ہوئی جارہی تھی۔ مردان خانے سے ملحقہ چھوٹا سا گھر چھمن میاں اور ان کی باندی کے لیے جھاڑو پونچھ کر سنوارا گیا۔ باندی بھی عارضی بیوی ہوتی تھی۔ صاحبزادے کی خدمت گزاری سے جو وقت ملتا وہ سلائی کڑھائی اور گھر کی سجاوٹ میں صرف ہوتا۔ بھاری کام نہیں لیے جاتے زیادہ سے زیادہ گلوریاں بنا دینا، پان دھونا، سپاری کتر دینا، اپنے کپڑوں کے علاوہ میاں کے کپڑے دھوبی کو دینا لینا، کاج بٹن کا خیال رکھنا، غسل کروانا اور ایسے ہی ہلکے پھلکے کام۔
تبھی تو باقی چھوکریاں نواب زادوں کی باندیوں کو بڑے رشک کی نگاہ سے دیکھا کرتیں، باسی سڑے کھانوں کے بجائے صاحبزادے کے ہاتھوں ترنوالے ملتے تھے۔ صاف ستھرا بستر، اپنے کام کے بعد مزے سے پیر پھیلائے سوئے اور چھمن پر تو سب لونڈیاں مرتیں تھیں۔ بالکل اللہ میاں کی گائے تھے کبھی کسی کو ننگی ننگی نظروں سے گھورا تک نہیں۔ سب ہی کو ارمان تھا کہ اللہ ان نے نصیب میں بھی چھمن سرکار جیسا نواب زادہ لکھا ہو۔ گویوں نے پکڑ کر اسے سچ مچ دلہن بنا ڈالا۔ مہندی لگائی، خوب مل مل کرنہلایا، نگوڑی رو پڑی۔ گندہ دھن چھوکریوں نے اس کی دھجیاں بکھیر دیں۔
چھمن میاں کی خوشی تو نجم بٹیا کے ہار پھول سے بھی بڑھ چڑھ کر ہوئی۔ زور دار رت جگا ہوا۔ نایاب بوبو مسجد میں طاق بھرنے گئیں۔ مقطع داڑھی دار مولوی نے میلاد مبارک پڑھا۔ رات کو شاندار دعوت ہوئی۔ گھر میں مراثنیں اور باہر قوال آئے۔ بڑے سرکارتو مجرے کی بھی ضد کر رہے تھے مگر ان کی منہ چڑھی رنڈی کسی شادی میں گئی ہوئی تھی۔ تو پھر شادی کے سرکیا سینگ ہوتے ہیں! سچ پوچھئیے تو کیا نہیں ہوا۔ جہیز بھی ملا۔ منہ دکھائی ہوئی۔ بس نکاح کے دو بول نہیں پڑھے گئے۔ ویسے چھمن میاں تو ہر سانس میں نکاح کے وعدے کرتے ہیں، مگر نایاب بوبو کا کہناہے۔
”ان نواب بچوں کے وعدے پانی کا بلبلہ ہوتے ہیں۔ ویسے بنو جوتیاں کھانے کا شوق ہو تو نکاح کرلو نکاح۔ ایک چھوڑ دس کرو، پر رہوگی باندی کی باندی۔ بیگم بننا تھا تو کسی نواب زادی کی کوکھ سے جنم لیا ہوتا“۔
شیر مال، شامی کباب اور بریانی کھا کر بیویاں گلوں میں گلوریاں دبا کر گاؤتکیوں کے سہارے ہو بیٹھیں تو اللہ رکھے چھمن میاں اور خرمہ بٹیا کی شادی کا ذکر نکل آیا۔ حلیمہ، جو پاس بیٹھی گلوریاں لگا رہی تھی کتھے کی چمچی چونے میں اور چونے کی کتھے میں ڈالتی رہی۔ مریم باجی کی سالگرہ بھی اچانک ہوگئی۔ ویسے تو وہ جون میں پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن نومبر کوئی بہت فاصلے پر نہ تھا۔ دراصل یہ دعوت انیس میاں کے کہنے پر ہوئی تھی۔ وہ مریم کے لیے ایک بہت لائق لڑکا ڈھونڈ کر لائے تھے، آج اسے ایک شاندار دعوت کے بہانے سے مریم سے ملایا جارہاتھا۔
مریم سفید جھاگ سی ساڑھی میں واقعی کوئی مقدس روح لگ رہی تھی آج ان کی رنگت موم جیسی بے جان ہو رہی تھی۔ آنکھوں میں انجانی اداسیاں تھیں۔ فرید احمد اسے مسحور ہو کر تک رہے تھے۔ نہ جانے انیس نے مریم کے کان میں کیا کہہ دیا کہ آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ وہ شادی کے لیے تیار نہیں تھیں۔ فرید احمد کو انیس گھیر کر لائے تھے۔
”وہ سید ہو یا شیخ، مجھے کسی سے شادی نہیں کرنا“۔ وہ روتی ہوئی کمرے میں بھاگ گئی تھیں۔ حرمہ کی نگاہیں دروازے پر لگی تھیں۔ سب آچکے تھے، صرف منصور غائب تھے اور جب وہ میلی قمیص پہنے بالوں میں انگلیوں سے کنگھا پھیرتے بھری محفل میں آن دھمکے تو جی ہی جی میں اس کی سبکی ہو گئی۔
”اور نہیں تو بقول افضل میاں ٹھیکہ نہیں لیا“۔ حیدر چچا بولے۔
”اماں بزنس۔ ڈیم بورنگ۔ بنیا پن“۔ منجھلے ماموں اپنی نویلی انگریز بیگم کے ساتھ آتے ہی میدان میں کود پڑے۔ پچھلے سیزن میں شملہ گئے تو ہتھے چڑھ گئیں، یہ کہیے یہ ان کے ہتھے چڑھ گئے۔ وہ ان کے عزیز ترین دوست مسٹر رب کی بیوی تھیں۔ گرمیوں میں انہیں تو توڑ کرنا تھے۔ بیگم کو شملے بھیج دیا۔ وہ منجھلے ماموں یعنی لیفٹیننٹ مختار کے ہاں ٹھہریں۔ دل ہی تو تھا۔ آگیا، منجھلی ممانی کو طلاق دینی پڑی اور ایڈنا رب فی الحال تو ایڈنا مختارہیں۔
”میاں وہ باڈی نکلے گی چند سال میں کہ کیا بتائیے۔ کیاسال آم توڑنے کی مگھی بنے ہوئے ہو“۔ انہوں نے اس بھونڈے پن سے منصور کے لمبے قد کا مذاق اڑایا کہ حرمہ بٹیا جل کر رہ گئیں۔ بات آگے بڑھتی مگر اشرف مختار کو اسی وقت اس کمرے میں لے جانے کے لیے آگئے جہاں پینے پلانے کا سلسلہ چل رہا تھا۔ رشید اور منصور بھی کیوں چوکتے۔ وہاں بھی بحث چلتی رہی۔ دو تین پیک کے بعد منصور نے کہا۔
اوپر اپنے کمرے میں مریم سسکیوں سے رو رہی تھی انیس ان کی انگلیاں چوم کر سمجھا رہے تھے۔ ”ڈارلنگ بے بی، دنیا داری تو نباہنا ہی پڑے گی ویسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تم میری ہو اور میری رہو گی“۔
”کاش طلاق لے سکتا۔ ہماری سول میرج ہوئی تھی، دوسرے میرے اوپر اتنا قرض ہو گیا ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔ یہ قرضہ کسی طرح چک جائے پھر میں کوئی نوکری تلاش کروں گا پھر تم کھلے بندوں میری ہو جاؤ گی۔ دوسری صورت کے لیے بھی تم تیار نہیں ہوئیں۔ ڈاکٹر میرا دوست ہے مگر اب تو بہت دیر ہوگئی میری جان“۔
آج الٹی گنگا بہہ رہی تھی۔ مئے ارغوانی اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔ بجائے حرمہ کے آج منصور کی نظریں اس کا پیچھا کر رہی تھیں۔ ان نگاہوں میں اسے اپنی فتح کا عکس نظر آرہاتھا۔ آج اس نے نہایت چست قمیص اور تنگ موری شلوار پہنی تھی۔ فاختہ کے پروں جیسا شفان کا دوپٹہ نام چار کو کندھوں پر پڑا تھا۔ ساڑھے تین پانچ سینڈل پہن کر وہ منصور کے کان کی لوتک پہنچ رہی تھی۔ اس نے کئی بارانجان بن کر منصور سے اپنے کو ناپا۔ کس قدر موزوں جوڑی تھی۔
چیدر چچا منصور کے پاس بیٹھے بڑے زور شور سے کوئی بالکل بے تکی بحث کررہے تھے۔ جب ان پرچڑھنے لگتی تھی وہ ہر بات کی کاٹ کرنے لگتے تھے، حتیٰ کہ خود اپنی کاٹ شروع کردیتے تھے۔ کبھی ایک دم کمیونسٹوں کے خلاف محاذ بنا لیتے اور منصور یا رشید کو گھیرکر الجھنے لگتے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ دنیا بھر کے کمیونسٹوں کی بے عنوانیوں کے یہی جواب دہ ہیں۔ اسوقت ان کے لہجے میں ہائیڈروجن بم گرجنے لگتے۔ کبھی ایک دم پلٹا کھا جاتے اورخود کمیونسٹوں سے بھی زبردست کمیونسٹ بن جاتے کیونکہ کسی زمانے میں وہ بال بال سرخ ہوتے بچے تھے۔
”ارے ماں تم لوگوں سے بہتر کمیونزم تو ہمارے دفتر میں موجود ہے۔ پچھلے مہینے ہمارے چپراسی کی لڑکی کی شادی تھی۔ ہاتھ جوڑ کرکھڑا ہوگیا کہ سرکار صرف دو منٹ کے لیے آجائیے۔ میری لاج رہ جائے گی۔ بس جناب ہمار بیگم کا دل موم کا تو ہے ہی پگھل گیا۔ فوراً ساڑھی لے کر پہنچی۔ حالانکہ تحفے صرف برابر والوں کو دیے جاتے ہیں۔ مگر میں نے کہا: کیا چپراسی انسان نہیں؟ اور پھر مسلمان بھی ہے۔ کیا نیچ لوگوں کے دل نہیں ہوتا؟ بیگم تم ضرور تحفہ دو، خیر صاحب گئیں بیگم اور دیاتحفہ“۔
منصور اور رشید سمجھ گئے کہ ضرور یہ وہی ساڑھی ہوگی جس کے بارے میں مریم اور حرمہ کہہ رہی تھیں پرانے گوٹے والے نے دس روپے لگائے تھے۔ چچی بیگم یوں ٹھاٹ سے نئے ڈبے میں سجا کر لے گئیں کہ براتی دنگ رہ گئے۔
منصور، چچا سے باتیں کرنے میں منہمک تھا مگر اس کے ہاتھ ان کے پچھے سے گزر کر ان کے دوسرے بازو پر بیٹھی ہوئی حرمہ کے ریشمی بالوں میں بھٹک رہا تھا۔
”چاند خان چپراسی خوشی کے مارے پاگل ہوگیا۔ میرے پیر پکڑ لیے غریب نے، بتائیے صاحبزادے اسلام میں کمیونزم میں کیا فرق ہے؟ اللہ پاک فرماتا ہے اپنے غلاموں کے ساتھ اچھاسلوک کرو“۔ چچا ہانک رہے تھے۔
”جی بجا فرماتے ہیں آپ“۔ منصور سوچے سمجھے جواب دے رہا تھا۔ اس کی روح اس وقت اس ہاتھ میں کھینچ آئی تھی جو حرمہ کے بالوں سے پھسل کرگردنپر لرز رہاتھا وہ دل ہی دل میں کہہ رہا تھا قبلہ میں قطعی آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہوں مگر خدارا ایسے گردن موڑئیے کہ حرمہ ڈر کر دور ہو جائے۔
”اللہ پاک فرماتا ہے جو دنیا میں میرے نام پر ایک درم دے گا اسے عقبیٰ میں ستر ہزار درہم ملیں گے۔
”سودا برا نہیں“۔ منصور نے بڑی فرمانبرداری سے کہا۔ حرمہ نے اس کی انگلی میں باریک سی چٹکی لی اور وہ اچھل پڑا۔ چچا چوکنے ہوگئے۔ حرمہ چھپ سے اٹھ کر بھاگی انہوں نے گردن موڑی تو منصور بھی غائب تھا، بے چارے حیران رہ گئے۔ انہیں شبہ بھی نہ تھا کہ یہ دونوں انہیں ٹٹی بنائے پیٹھ پیچھے چوہے پکڑ رہے تھے۔
کسی نے دونوں کو پائیں باغ کی طرف جاتے نہ دیکھا۔ سوائے فرخندہ بانوکے، ان کی آنکھیں بھیگ گئیں او دل نے ٹھیس محسوس کی یا ایک جھلک چھمن میاں نے دیکھی جو دیر سے آنے کی معذرت کررہے تھے۔ اگر چھمن کبھی چوری چوری اس کی طرف دیکھتے بھی تو یوں جیسا چوہا بلی کو دیکھتاہے۔ حرمہ ان سے چڑی ہوئی بھی تھی مگر آج تووہ بڑے بانکے ترچھے لگ رہے تھے۔ جسم پر بوٹی بھی آگئی تھی۔ بال بھی برل کر یم لگا کر سنوارے گئے تھے۔ ضرور حلیمہ نے بنا سنوار کر سسرال بھیجا ہوگا!
سارے خاندان کو معلوم تھا کہ حلیمہ چھمن پر دو آتشہ بن کر چھا گئی ہے۔ چھمن کی دلہن کو بڑے تیر و تفنگ استعمال کرنے پڑیں گے۔ انہیں تو دنیا میں سوائے حلیمہ کے دوسرا نظر ہی نہیں آتا۔ کیا وحشت ہے! کیاسرور ہے! پانی کا سا لطف کہ روز پینے کے بعد بھی ہمیشہ کے لیے پیاس نہ بجھتی۔
چھمن نے آج بے باکی سے حرمہ کی طرف دیکھا تھا۔ ان کی نظروں میں منگیتر کی حیثیت سے کوئی پیغام نہ تھا۔ برادرانہ دلچسپی کا اظہار ضرور کیا۔ حرمہ نے مسکرا کر انہیں ہاتھ اٹھا کر سلام کیا اور باغ کی طرف بھاگ گئی۔
اس کا چہرہ تمتمارہا تھا، وہ سیدھی غسل خانے میں جا کرمنہ پر سرد پانی کے چھپکے مارنے لگی۔ جب دل کی دھڑکن ذرا قابو میں آئی بال ٹھیک کرنے کے لیے وہ مریم کے کمرے میں چلی گئی۔ بجلی جلائی تو دھک سے رہ گئی۔
مریم کی نازک پلنگڑی پر سفید جھاگ جیسی آب رواں کی ساڑھی موجیں ماررہی تھی جس کے اتار چڑھاؤ میں پتلون زدہ ٹانگیں غوطہ زن تھیں۔ وہ گرتی پڑتی الٹے پیروں بھاگی دو دو سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگتی وہ تیزی سے زینے پر سے اترنی لگی۔ آخری سیڑھی پر اس کا پیر دوپٹے میں الجھا اور وہ اوندھے منہ منصور کے پھیلے ہوئے بازوؤں میں گری۔
حرمہ کو بدحواس دیکھ کر منصور بھی پریشان ہو گیا۔
”کیا ہوا؟ “ اس نے اسے سنبھال کر پوچھا۔ حرمہ ایک دم سسک کر رو پڑی اور اپنامنہ اس کے سینے میں چھپا لیا۔ اس قربت نے آگ پر تیل کا کام کر دیا مولسری کے تناور درخت کے نیچے دونو ں پگھل کر بہہ گئے۔
”اف! یہ لڑکیوں کی قمیض کہاں سے کھلتی ہے؟ ہزاروں بٹن لاکھوں ہک! “
ڈرائنگ روم میں نوجوان لڑکے لڑکیاں میوزیکل چیئر کھیل رہے تھے۔ ان کے قہقہے اور تالیوں کی آواز دور کسی دنیا سے آرہی تھی۔ کائنات سنسان تھی۔ سوائے دو دلوں کی دھڑکن کے۔
منصور نے دھندلکے میں حرم کے نیم پیاسے ہونٹ اور چاہت سے سلگتی ہوئی آنکھیں دیکھیں۔ اسے کے کاغذ جیسے سفید گالوں پر موتی اب تک چمک رہے تھے۔ ابلی چاندنی جیسا کنوارا سینہ کنول کے پھولوں کی طرح کانپ رہا تھا۔ ٹھنڈی زمین پر دھکتی ہوئی حرمہ اور چار بڑے پیگ کا نشہ!
آنکھیں۔ معصوم بھوکی آنکھیں انجانی خواہشات سے چھلکتی آنکھیں حرمہ کی آنکھیں۔ منصور کی آنکھیں! اس کی محبوبہ کی آنکھیں! پیارے دوست کی آنکھیں۔
جیسے زور سے کسی نے اسے دھکیل دیا۔ وہ بچوں کی طرح سہم گیا اور کہنیوں میں منہ چھپا لیا۔ وہ شیرجو دوپل پہلے زور و شور سے گرج رہا تھا دبک کر غار میں واپس لوٹ گیا۔ ڈرتے ڈرتے حرمہ نے اس کا ہاتھ چھوا۔ اس کے گالوں پر لمبے لمبے آنسو بہہ رہے تھے۔ سینے میں سسکیاں ابل رہی تھی۔
جب دونوں شوروغوغا کی طرف واپس لوٹے تو ایسا معلوم ہوا ساتھ ساتھ کوئی خواب دیکھ کر آئے ہیں۔ عمداً ایک دوسرے سے دور دور، دو نازک بلبلو ں کی طرح الگ الگ کہ کہیں ٹکرا کر پھوٹ نہ جائیں۔ مریم سے آنکھ ملانے کی حرمہ کو ہمت نہیں ہورہی تھی۔ انیس سے اسے گھن آ رہی تھی۔ مگر اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ مریم فرید سے بڑے شرارت بھرے اندازے میں میٹھی میٹھی باتیں کررہی تھیں۔ انیس دونوں کی باگیں تھامے ہانک رہے تھے۔