مدھم چاند کی روشنی ، رقص کرتی خاموشی اور درد کے بے تحاشا قافیے۔ حلق میں پھنسی چیخ بغاوت کو جکڑے ہوئے اور امید بلند حوصلوں کی ترجمان۔ بکھرے ہوئے تخیل کا احتجاج، آنکھوں کا ٹوٹتا ربط اورگہری رات۔ اندھیرے میں سکون ہو تو کوئی صبح کی خواہش ہی کیوں کرے۔ میری مراد ایک سمندر سے گہرے لفظ ”احساس“ سے ہے جو چٹیل میدان میں بھاگتے گھوڑے کو تو مالک کا ہوتا ہے کیونکہ وہ وفادار جانور ہے اورعقل سے پیدل بھی مگر احساس سے دوڑتا چلا ہی جاتا ہے۔ یہ وہ لفظ ہے جو باغی ہوا میں کہیں اڑ گیا یا پھر نمک حرامی کی نظر ہو گیا ،ہوسکتا ہے کہ طوفانی بارش میں بھیگ کرمردہ ہو گیا ہو۔
نانی اماں کہا کرتی تھیں کہ ”بیٹا جس نے کھڑا نہ دیکھا، اس نے بیٹھا کیا دیکھنا ہے“ اُس وقت یہ بات پلے نہیں پڑتی تھی۔ آج اس بات کو میں بھی اپنے سے چھوٹوں کو بڑے اعتماد سے کہتی ہوں۔ کیونکہ اب مجھے یہ بات زمانے نے سکھائی ہے۔ کبھی کبھار لگتا ہے کہ شاید الفاظ میں تاثیر نہیں رہی یا پھر ایسے جیسے ”آواز دے رہی ہوں کوئی بولتا نہیں“ کی طرح کا معاملہ ہے۔ کم عمری کی محبت کے اظہار کے لئے اکثر کہا جاتا ہے کہ محبت آنکھوں کی زبان ہے اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ شرماتی آنکھیں ہر محفل میں اس فلسفے کی تصدیق بھی کر دیتی ہیں۔
پھر کیوں تم یہ نہیں سمجھتے کہ احساس بھی سمجھنے کی زبان ہے جس کے بار بار کہنے سے اس کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔ خاموشی سے اس کو محسوس کرنا ہی اصل روح کو تازہ رکھتا ہے مگر یہ میں کیا دیکھتی ہوں کہ بے حسی بلڈ پریشر، شوگر اور موٹاپے سے بھی خطرناک بیماری ہے جس کی تشخیص معالج بھی نہیں کرتا کیونکہ سو میں سے ننانوے مرتبہ وہ خود اس بیماری کا شکار ہوتا ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق 2020 میں مرنے کی سب سے بڑی وجہ ذہنی تناؤ ہوگا۔ اخبارات کی سرخیاں بنیں، سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی، اچانک جو خوش رہ بھی رہے تھے انہوں نے اپنی غلطیاں چھپانے کے لئے سارا ملبہ ڈپریشن پر ڈال دیا اور پھر خود مظلوم بن گئے اس میں کئی وہ لوگ قربانی کا بکرا بنے جو حقیقتاً اس اذیت کا شکار تھے۔
امر ہوتی نفرت کا عرس منانے والے یا تو پاگل کہلاتے ہیں یا پھر کسی نشے کی ”اوور ڈوز“ سے مر جاتے ہیں اور اللہ کا کرم ہوجائے تو معاملات زندگی چھوڑ کر لاہور کے داتا دربار کے قریب ان کا ہجوم آپ کو ملے گا۔ آپ کوئی سوال کریں یا تو یہ مخلوق آپ کو مارنے لگے گی یا پھر اونچا اونچا ہنسنے لگیں گے اور اگرآپ کے ”احساس سیلز“ کام کر رہے ہوئے تو باقاعدہ محسوس ہوگا کہ آپ کا مذاق اڑایا جارہا ہے ورنہ دھدتکارتے ہوئے آپ وہاں سے ہراس شخص کی طرح چل دیں گے جو ہاتھ کے اشارے سے انہیں بیکار تسلیم کر رہا ہوتا ہے۔
رات مزید گہری ہورہی ہے اور صبح کے سورج پر بھی گرہن لگا ہوگا۔ کیا؟ میں مایوس ہوں؟ اور مایوسی گناہ ہے؟ ہے ناں؟ پھر ظلم کو کیا کہو گے؟ جبر برداہشت کو کب تک ہی آزمائے گا؟ یہ کیا کہ ہر شخص ہی اَوازار ہے اور ہر کوئی ظلم کی شکایت کررہا ہے۔ سینکڑوں سوالوں کے ہزاروں جواب مگر بیماری جوں کی توں۔ کینسر کا علاج ممکن ہوگیا مگر کہاں ہے کمبخت جدت جو اس نحوست کی تشخیص ہی نہ کر سکی۔ اچھا مجھے یہ بھی واضح کرنے دیں کہ بے حسی کا مطلب محض کسی کا حق مارنا ہی نہیں ہے بلکہ وقت پر مناسب رویے کا فقدان فساد کی جڑ ہے اور یہ اس قدر تناور درخت میں بدل جاتا ہے کہ ڈھانے پر ہر وار سے زہر کی مقدار بڑھتی ہی چلی جاتی ہے جس کی زد میں آکرآپ تو مر یں گے ہی ، آس پاس کے بے قصور بھی مفلوج ہوجائیں گے اور پھر چل سو چل!
ہاں! یہاں آپ نے منہ چڑایا ہے مجھے نظر آگیا۔ رکئے ”، حل بھی بتاتی ہوں، ناقص العقل ہوں مگر گونگی نہیں۔ اپنے اردگرد میں رہنے والے لوگوں کو توجہ دینا شروع کریں، چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کا جشن منائیں، ہرغیرمعمولی تبدیلی کو اہم گردانیں، بڑھتے ہوئے فاصلوں کو قیامت جانیں اور بے وقت کے پچھتاوے کو ضائع سمجھیں، رشتے اور رابطے بوجھ لگیں تو فوری ختم کر دیں، محبت دوبارہ ہوجائے گی مگر اذیت کی زندگی سے کئی درجے بہتر ہے کہ سکون کو ترجیح دیں۔
لٹکتے ہوئے رشتوں کو قید سے آزاد کریں۔ سب سے ضروری ہے کہ بے حسی کو بیماری سمجھتے ہوئے اس کا علاج اپنی عادتوں کو تبدیل کرکے ممکن بنائیں، پھر نہ تو نفسیاتی ڈاکٹروں کی بھاری فیس بھرنا پڑے گی، نہ روز روز طلاق ہوگی، نہ ہی اپنے اندر کا غبار نکالنے کے لئے عیاشی کی ضرورت پڑے گی۔ یقین کریں صرف سمجھنے سے آپ جینے لگیں گے اور یہ کٹتا وقت زندگی بن جائے گا۔ مجھ پر اعتبار کریں میرا کوئی دواخانہ نہیں ہے جس کی تشہیر کے لئے میں اتنا قائل کر رہی ہوں، نہ ہی کسی عامل بابا کی مارکیٹنگ ایجنٹ ہوں۔ میں بھی آپ ہی کی طرح مریض ہوں جو اس کا علاج ممکن بنانے کے لئے حوصلہ چاہتی ہوں۔