قاسم کا فون آیا، بھائی جان آپ کہاں ہیں، ایک دوست کے معاملات پہ بات کرنی ہے۔ میں نے کہا گاڑی چلا رہا ہوں، چالیس منٹ تک گھر پہنچ رہا ہوں، گھر پہنچا تو قاسم ڈیرے پہ انتظار کر رہا تھا۔ سلام دعا ہوئی، معاملات پہ بات چیت کے بعد بولا، بھائی جان یہ قریب ہی میں ایک بزرگ آن رُکے ہیں، دین پور شریف (خانپور) سے تشریف لائے ہیں، میں ملاقات کر کے آ رہا ہوں، دل ابھی تک وہیں اٹکا ہوا ہے، کیوں نہ ایک بار چلیں۔ میں نے کہا مغرب ادا کر کے چلتے ہیں، مغرب کے بعد وہ گاڑی لے کر آیا اور ہم آدھے گھنٹے میں مطلوبہ مقام پر جا اترے۔
اندر کافی لوگ بیٹھے تھے، صفیں بچھی تھیں اور اللہ ہُو کا ذکر جاری تھا، میں داخل ہوا تو بابا جی کی نظر پڑی، میرے بیٹھنے تک وہ بغور دیکھتے رہے۔ ذکر کے بعد نماز بابا جی کی معیت میں ادا کی۔ مصافحہ کرنے کے لئے آگے بڑھا تو پوچھنے لگے کون؟ جواب دیا نہ آپ مجھے جانتے ہیں، نہ میں آپ کو جانتا ہوں۔ وہ میرے جواب پر مسکرا دیے۔ قاسم نے آواز دے کر بلا لیا، بھائی جان ہم ابھی بابا جی کے ساتھ سفر کریں گے، یہ ساتھ ہی لیاقت صاحب کے ڈیرے پر قیام کرنے والے ہیں اور پھر تھوڑی دیر بعد ہم لیاقت صاحب کے ڈیرے پر پہنچ چکے تھے۔
بابا جی نے کہا کوئی ملاقات کا خواہشمند ہے تو اندر بھیجو۔ میں اندر داخل ہوا تو بولے، یہ بندہ مجھے غصے والا لگتا ہے، اس کو اوپر بٹھاؤ، عرض کیا میں قدموں میں بیٹھوں گا، لیکن آپ کو ایک بات بتاؤں؟ آپ پہ نظر پڑی تو میں نے خود سے کہا، یہ بابا تو مجھے پسند نہیں آیا، لیکن مریدین کے ساتھ ہونے والی گفتگو سنی تو میں بیٹھنے پر مجبور ہو گیا۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں رائے پور شریف (ڈھڈیاں شریف) والوں کا مرید ہوں اور شرک و بدعت سے مجھے چڑ ہے۔ فرمانے لگے اور پاس آ جاؤ، تیرے رائے پور شریف والے ہزار دانوں کی تسبیح لئے بوسیدہ سی کرسی پہ بیٹھے پڑھ رہے ہوتے تھے اور میں جا کر بیٹھ جاتا تھا، ان کی پڑھائی مکمل ہوتی تو حاضری لگواتا۔ شاہ عبد القادر کے پاس حاضری کے لئے باقاعدہ جایا کرتا تھا اور اب تمہارے پیر کی کچی قبر پہ فاتحہ کے لئے جاتا ہوں۔
تمہیں پتہ ہے، میں مولانا عبد اللہ درخواستی (رح) کا گیارہ سال تک شاگرد رہا، میری دستار بندی پر مولانا احمد علی لاہوری (رح) تشریف لائے تھے اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری (رح) کے ہاتھ دھلوانے اور ان سے اپنے ہاتھ دھلوانے کا شرف حاصل ہے، امیر شریعت اپنے ہاتھوں سے لقمے توڑ کر کھلایا کرتے تھے مجھے۔ خیر اب تم جاؤ۔ میں نے کہا، خالی ہاتھ کیوں جاؤں؟ فرمانے لگے کھانا تو میزبان کھلائیں گے، میں نے کھانا نہیں کھانا، آپ ان سے کہیں کہ آپ کا دودھ پینے کا دل کر رہا ہے۔ مسکرائے اور میزبان سے بولے، لیاقت میرے لئے دودھ لے آؤ، تھوڑی دیر میں دودھ آ گیا۔ فرمانے لگے دو اب اس کو، میں نے کہا ایسے نہیں، جو گلاس آپ کے ہاتھ میں ہے اسی سے پیوں گا، بولے باقی سب کو پلاؤ اس کو رہنے دو۔ آدھا گلاس خود پینے کے بعد گلاس میری طرف بڑھایا، لو پیو اور اب جاؤ۔
دودھ تو میں نے پی لیا، مگر میرا اصرار تھا کہ خالی ہاتھ نہیں جاؤں گا۔ اپنی گاڑی سے خشک میوہ منگوایا اور دیتے ہوئے بولے اب جاؤ، میں نے پڑھائی کرنی ہے۔ واپس پہنچا مگر عجیب سی بے کلی رہی۔ صبح پتہ چلا کہ بابا جی ساتھ والے گاؤں میں ہیں، میں دوڑا دوڑا اپنے قاری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، عرض کی آپ کے استاد جی کی طبیعت کیسی ہے، کوئی ملاقات ہوئی کہ نہیں۔ استاد تھے میرے، فورا سمجھ گئے، بولے ملنا چاہتے ہو؟
میں نے جھٹ سے کہا، گاڑی لے آتا ہوں۔ اچھا تم گاڑی لے آؤ۔ میں نوافل ادا کر لوں۔ اپنے استاد جی کو ساتھ لیا اور ایک گھنٹے بعد ان کے استاد جی کے پاس پہنچ گئے، سو سے زیادہ بہاریں دیکھ چکے ماشاءاللھ۔ میرے استاد جی کا اپنے استاد جی کے سامنے وہی حال رہا جو میرا ان کے سامنے ہوتا ہے۔ واپسی کے سفر میں عرض کی اس راستے سے چلتے ہیں سنا ہے دین پور شریف والے آئے ہوئے ہیں فلاں چک میں۔ کون مسعود احمد دین پوری صاحب، میں نے کہا مجھے نام نہیں پتہ، بس بابا جی ہیں اور مجھے محبت ہو گئی ہے۔ اچھا چلو، وہ مولانا عبداللھ درخواستی کے شاگرد ہیں۔ وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ مہر احمد شیر کے ہاں قیام ہے، اندر داخل ہوئے سلام کے جواب کے بعد دریافت کیا رات والے ہو ناں، کہا وہی ہوں، اچھا نماز کے بعد ملتے ہیں۔
ظہر ادا کی تو استاد کے ساتھ آگے بڑھا، استاد جی سے کہنے لگے تُم محمد بخش صاحب کے صاحبزادے ہو، جی بالکل، بہت نیک ہستی تھے، دیو بند سے فارغ التحصیل تھے۔ اچھا تُم نے اس کو حافظ تو بنا دیا، عالم کیوں نہیں بنایا۔ آپ دعا فرما دیں بس اللہ کو یہی منظور تھا۔ اچھا اب تم لوگ جاؤ، میں نے کہا خالی ہاتھ، اپنی جیب ٹٹولتے ہوئے بولے اس وقت کُچھ ہے نہیں، میں نے کہا نصیحت تو ہے ناں؟ کہنے لگے با ادب بانصیب، بس اب تم جاؤ، شام کو ذکر پہ آ جانا۔
میں نے بھائی یوسف کو ساتھ لیا اور شام کو جا دھمکا۔ مہمان سارے کھانا کھا رہے تھے۔ میں نے کہا مجھے بابا جی کے پاس لے چلو۔ اندر جا کر بیٹھ گیا، لوگ آ جا رہے تھے۔ میں نے کہا، کل آپ نے ایک بات بتائی تھی، کون سی؟ یہی کہ امیر شریعت سید عطا ءاللھ شاہ بخاری (رح) آپ کو کھانا کھلایا کرتے تھے، مجھے اس کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہے کہ کیسے کھلاتے تھے؟ میزبان سے کہا کہ کھانا لے آؤ، دال اور چاول پلیٹ میں ڈالے، چند لقمے خود کھانے کے بعد بسم اللہ پڑھ کے ایک لقمہ کھلایا، پھر دوسرا پھر تیسرا اور اُس کے بعد پلیٹ مجھے تھماتے ہوئے بولے ایسے کھلایا کرتے تھے۔ اچھا اب تم جاؤ، نام کیا ہے تمہارا، میں نے کہا حافظ اسد جاوید اور میں نکل آیا۔
صبح والد صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر شفیق اللہ انجم صاحب کی والدہ کی وفات ہو چکی، میں نے موٹر سائیکل نکالا اور دس منٹ میں ڈاکٹر صاحب کے پاس جا پہنچا، تعزیت کی، چائے پی اور ان سے کہا آئیں ذرا ساتھ والے چک سے ہو کر آتے ہیں۔ مسجد پہنچے، میں نے جا کر سلام کیا، بولے پہنچ گئے ہو، جی پہنچ گیا ہوں۔ ہم فلاں جگہ پہ جا رہے ہیں، میں نے کہا میں حاضر ہو جاؤں گا۔
شام کا کھانا ابا جی کے ساتھ کھایا، گاڑی نکالی اور بابا جی کے پڑاؤ والی جگہ پہنچ گیا۔ عشاء ان کی معیت میں ادا کی، سب لوگ کھانا کھانے لگے تو میں انتظار میں بیٹھ گیا، بولے کھاؤ یا باہر چلے جاؤ۔ میں نے کہا انتظار میں ہوں، بولے میں نے کھانا ہی نہیں۔ چاول ڈالے دو چمچ اور کھا کے بیٹھ گیا۔ میں نے کہا یہیں قیام ہے یا کہیں اور بولے یہ پاس ہی ایک جگہ ہے وہاں رکنا ہے۔ جوتے منگوائے اور گاڑی کی طرف جاتے ہوئے بولے، اچھا اسد صاحب اللہ حافظ
اللہ حافظ کیوں، ابھی تو ہماری کئی ملاقاتیں باقی ہیں، ہاں ضرور انشاءاللھ۔ ڈاکٹر شفیق اللہ انجم کو فون کیا کہ بابا جی آپ کے علاقے میں رات ٹھہریں گے، انہوں نے کہا میرے گھر کے سامنے والے گھر میں، میں فورا وہاں پہنچا، بھائی یوسف بھی آ گئے، ڈاکٹر شفیق صاحب بھی۔ مجھے دیکھا تو بولے، پھر آ گئے ہو؟ میں نے کہا یہ دو لوگ آئے ہیں دنیا پور سے، ان کو دین پور دکھانے لایا ہوں، کہنے لگے، ہم سب دنیا پور والے ہیں۔ دعا کرتے ہیں سب کے لئے۔ اچھا اب جاؤ، میں نے کہا تھوڑی دیر بیٹھ جاتا ہوں، نہیں بھئی میں نے پڑھائی کرنی ہے، اٹھنے لگا تو بولے جمعہ فلاں علاقے میں پڑھیں گے، اور اب میں جمعے کا شدت سے انتظار کر رہا ہوں۔