سیکس خریدنے والے مجرم ہوں گے

یاد رکھا جائے یہ پوسٹ اردو وی او اے کے ویب سائیٹ میں مورخہ16جنوری کو پوسٹ کیا گیا تھا  اور ہم دیر سے اسے پوسٹ کررہے ہیں،
ہمارا مقصد سماج میں عورت کے حقوق کے بارے میں شعور  اجاگر کرنا اور سماج کے اندر دوسرے برائیوں سے پردہ اٹھانا ہے۔

 

کراچی — بھارتی ریاست آندھرا پردیش کے اکثر سیلن زدہ اور نیم تاریک قحبہ خانوں میں عورتوں کے ساتھ سیکس با آسانی خریدا جا سکتا ہے۔ ریاست میں یہ سلسلہ کئی طویل برسوں سے جاری ہے تاہم اب آندھرا پردیش ایسے افراد کو مجرم قرار دینے والی پہلی ریاست بن گئی ہے۔
بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق آندھرا پردیش حکومت کے بچوں اور خواتین کی بہبود کے محکمے کے جاری کئے گئے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’سیکس کے خریدار‘ سب سے بنیادی مسئلہ ہیں جو کسی بھی کارروائی کی صورت میں زیادہ تر کیسز میں بچ نکلتے ہیں۔
اس حکم نامے کے مطابق جو سیکس ورکر خواتین پکڑی جائیں گی انہیں بحالی کے مراکز میں بھیج دیا جائے گا۔ جنسی کاروبار کے اڈے چلانے والوں کے خلاف ایمورل ٹریفک پری وینشن ایکٹ 1956 کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔
پہلی بار جرم کرنے پر ایک سال قید بامشقت اور دو ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ دوسری بار کے مجرم کو دو سے پانچ سال قید اور دو ہزار جرمانے کی سزا بھگتنا ہو گی۔
خواتین اور بچوں کو جنسی غلامی سے نجات دلانے کے لیے گزشتہ ہفتے آندھرا پردیش کی حکومت نے قانونی ماہرین اور انسانی تجارت کے خلاف مہم چلانے والوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے مجرموں کو انسداد انسانی تجارت کے قوانین کے دائرے میں لانے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔ یہ کمیٹی ہر تین مہینے بعد اجلاس میں ٹریفکنگ کی صورتحال اور اس کی روک تھام کے لئے کئے گئے اقدامات کے نفاذ کا جائزہ لے گی۔
سات ارکان پر مشتمل ایڈوائزری گروپ کی رکن اور ٹریفکنگ کے خلاف مہم چلانے والی سوشل ورکر سنیتا کرشنن کا کہنا ہے کہ آندھرا پردیش ٹریفکنگ اور سیکس کے خریداروں کے خلاف کارروائی کرنے والی پہلی ریاست بن گئی ہے۔ ان کے مطابق خواتین اور بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے یہ ایک دلیرانہ فیصلہ ہے۔
تھامس رائٹرز فاؤنڈیشن سے بات کرتے ہوئے سنیتا کرشنن کا کہنا تھا کہ امید ہے اب صرف جنسی کاروبار کرنے والے ہی نہیں بلکہ وہ جو اس عمل میں ملوث ہوں، ان پر نئے ضوابط کا نفاذ کیا جا سکے گا۔
کرشنن کے مطابق جب تک جنسی خریداروں کو مجرم خیال نہیں کیا جائے گا، تب تک لڑکیوں کی خرید و فروخت کو روکا نہیں جا سکے گا۔
بھارت میں خواتین اور بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی وفاقی کمشنر، ایچ ارون کمار کے مطابق جنسی خریدار اب تک بغیر کسی سزا کے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔
ٹریفکنگ کے خلاف مہم چلانے والے افراد کا کہنا ہے ٹریفکنگ کے خلاف کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتیں جب تک پولیس ان لوگوں کو نہیں پکڑتی جو قحبہ خانوں کا رخ کرتے ہیں اور ان قحبہ خانوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی جہاں جنسی غلامی ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے 2013 میں جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں دو کروڑ سے زائد سیکس ورکرز موجود ہیں۔ ان میں سے ایک کروڑ 60 لاکھ خواتین اور لڑکیاں ہیں جو انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوئیں۔

بشکریہ اردو VOA