عاصمہ رانی قتل: ایک ملزم گرفتار، دوسرے کو سعودی عرب سے پکڑنے کے لیے ریڈ وارنٹ جاری

عاصمہ رانی 
تصویر کے کاپی رائٹ
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع کوہاٹ میں حکام کا کہنا ہے کہ میڈیکل کالج کی طالبہ کے قتل میں مبینہ طورپر ملوث نامزد ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ سعودی عرب فرار ہونے والے مرکزی ملزم کی گرفتاری کےلیے ریڈ وارنٹ جاری کردیا گیا ہے۔
کوہاٹ کے ضلعی پولیس سربراہ عباس مجید مروت نے بی بی سی کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد میں ایم بی بی ایس کی تھرڈ ایئر کی طالبہ عاصمہ رانی کے قتل میں نامزد ملزم صادق آفریدی کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سعودی عرب فرار ہونے والے قتل کے مرکزی ملزم کی گرفتاری کے لیے ان کا ریڈ وارنٹ جاری کردیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی ملزم کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے مدد لینے کےلیے کارروائی کی جارہی ہے۔
گذشتہ رات گرفتار ہونے والے ملزم صادق آفریدی مرکزی ملزم مجاہد آفریدی کے بھائی ہیں۔ پولیس کے مطابق حراست میں لیے جانے والے ملزم نے مبینہ قاتل مجاہد آفریدی کی معاونت کی تھی۔
ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد میں ایم بی بی ایس تھرڈ ایئر کی نوجوان طالبہ عاصمہ رانی کو اتوار کو کوہاٹ کے علاقے میانخیل میں اس وقت گولیاں مار کر قتل کیا گیا جب وہ گھر سے کہیں جا رہی تھیں۔
مقتولہ کے بھائی عرفان کی طرف سے درج کردہ ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قاتل ان کی بہن سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن ملزم پہلے سے شادی شدہ تھا جس کے باعث رشتہ دینے سے انکار کیا گیا تھا۔
پولیس ذرائع کے مطابق ایک ملزم واردات کے فوری بعد بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئر پورٹ اسلام آباد سے سعودی عرب فرار ہوگیا۔
مظاہرہ
تصویر کے کاپی رائٹ خیبر پختونخوا میں گذشتہ چند ہفتوں کے دوران لڑکیوں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں
مقتولہ نے موت سے قبل ایک ویڈیو بیان دیا تھا جس میں ملزم مجاہد آفریدی کا نام لے کر اسے قتل کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ یہ ویڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر بھی جاری کیا گیا ہے۔
دریں اثنا مقتولہ کے والد نے الزام لگایا ہے کہ ان کی بیٹی کا قاتل حکمران جماعت تحریک انصاف کے ضلعی صدر کا بھتیجا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قاتل واردات کرکے کیسے ملک سے فرار ہوا اور پولیس اس دوران کہاں تھی۔
ادھر ملزم کے چچا اور تحریک انصاف کوہاٹ کے صدر آفتاب عالم نے کہا ہے کہ قاتل کی گرفتاری کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہر قسم کا تعاون کیا جائے گا۔ انھوں نے ان اطلاعات کی سختی سے تردید کی کہ قاتل کو بچانے کے لیے سیاسی اثرو رسوخ کا استعمال کیا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا میں گذشتہ چند ہفتوں کے دوران لڑکیوں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں جبکہ بیشتر واقعات میں ملزمان فرار ہوچکے ہیں جس سے پولیس کی کارکردگی پر بھی کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
تقریباً دو ہفتے قبل مردان میں چار سالہ بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جس کی اعلیٰ سطح پر نوٹس بھی لیا گیا لیکن ملزم تاحال گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو