جنسی تعلیم کے معاملے میں غلط راستہ مت بتائیں

نبیہ فاطمہ شہرام


لاہور والوں کی ایک عادت مشہور ہے، رستہ اکثر غلط بتاتے ہیں۔ اس عادت کی وجہ یہ ہے کہ مشورہ مفت ہے اور ہر بات میں ماہرانہ رائے دینے کا ازحد شوق، موضوع کا بے شک علم نہ ہو۔ جب کوئی معاشرتی مسئلہ ہو تو سب غلط راستہ بتانے کھڑے ہو جاتے ہیں، نا تو موضوع پر تحقیق اور نا ہی تجربہ۔ ہر شخص کا ایک نیا فلسفہ اور اور پھر اس پر طرہ یہ کہ اس پر بحث بے شمار کہ میری بات پتھر پر لکیر ہے۔ ہمارے مردہ ضمیر سمجتے ہیں کہ ایک سانحے پر تبصرہ کرنے سے ہمارا ہر فرض ادا ہو جاتا ہے۔ زینب تو ہم سب کے دل کا چین اپنے ساتھ لے گئی اور دل جیسے مر گیا ہو۔
ایسے میں کہ جب یہ معصوم کا خون ہمارے سر پر ہے، ہماری مجرمانہ خاموشی اس کا ایک سبب، تو ہم پھر بھی ہوش میں نہیں آرہے۔ بجائے اس کہ ہم اس وقت کسی نیشنل پالیسی پر عمل کرتے، زیر بحث یہ ہے کہ بچوں کو جنسی تحفط پر ایجوکیشن دی جائے یا نہیں۔ 1960 تک جنڈر سٹڈیز نام کے مضمون کا کوئی وجود نہیں تھا، مگر اس وقت کی سماجی تحریکوں نے جنس کی بنیاد پر ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی، عورت کو ظلم اور جہالت سے بچانے کے لئے، ایک پورا مضمون، نصاب میں شامل ہوا، تاکہ شعور بیدار ہو اور جہالت کو شیشہ دکھا کر، کچھ احساس بیدار کیا جائے۔ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ عورت کی عزت، فلسفہ، ادب، سیاست، نفسیات اور تعلیم میں اُس کی بھی برابر کی اہمیت ہے۔ تب بھی کچھ لوگوں کو یہ وہم تھا کہ شعور سے عورت آوارہ ہو جائے گی۔
پورن سائنس کو سرچ کرنے میں نمبر ون قوم کے سر پر جنس کا بھوت اس قدر سوار ہے کہ ہم جنسی تحفظ کو بھی جنسی عمل سے مستعار کرتے ہیں۔ بچے کے ساتھ کچھ بھی زیادتی ہو جائے مگر اس کو اپنا تحفظ سیکھنے کے عمل سے معاشرے میں بے راہ روی اور فری سیکس کی فضا قائم ہو جا ئے گی۔ مدرسے میں موجود بچہ ہو یا ڈرائیور کے ساتھ کار میں موجود اکیلا بچہ، ماموں ہو یا باپ، انکل ہوں یا ٹیچر تحفظ لازم ہے۔ ہر بچے کو حق حاصل ہے کہ اسے پیار، ذہنی آلودگی اور بیماری کا فرق پتا ہو۔ وہ کسی خوف، لالچ یا پیار سے بلیک میل نہ ہو۔
یہ فرق تو ایک معصوم بچے کے ذہن کو سمجھانا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جا تا ہے۔ بچے کو جن اور بھوت سے ڈرانا آسان ہے لیکن انسان نما شیطان سے دور رکھنا ایک مکمل تعلیم، ایک مکمل حکمت عملی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ میرا تعلق تعلیم اور ریسرچ کے شعبے سے ہے، بچوں کا تحفظ میری کچھ ریسرچ کا موضوع بھی ہے۔ جس کام کے لیے ریسرچ کرنی پڑتی ہے، دھکے کھانے پڑتے ہیں، ایک مکمل سائنسی اور سماجی اصول فالو کرنے پڑتے ہیں، کچھ لوگ اس پر اس طرح مفت رائے دیتے ہیں جیسے ان سے بہتر کسی کو علم نہیں ہے۔ غلط راستہ بتانے والوں کی طرح یہ بھی ناواقف ہیں کہ اس عمل سے کس قدر کوفت ہوتی ہے اور منزل تک پہنچنے میں مزید دیر ہوجاتی ہے۔ جنسی تحفظ کی تعلیم بچے کو یہ سکھاتی ہے کہ ڈر اور خوف اس کے دشمن ہیں۔ کسی پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنے آپ پر بھروسہ رکھ سکے۔ اردگرد کے لوگوں کے ساتھ کبھی اکیلا مت جائے۔ چیخنا اور شور مچانے کو اپنا ہتھیار سمجھے، ٹافی اور بسکٹ کا لالچ اس کے دشمن کا ہتھیار ہیں۔ اس کا جسم اور ذہن دونوں تب تک محفوظ ہیں جب تک کہ وہ بھیڑیوں سے محفوظ اور دور ہے۔ کسی کے ساتھ اکیلے جانا، کمرہ ہو یا سڑک دوکان ہو یا گاڑی دونوں غیرمحفوظ ہیں۔ لیکن بچوں کو یہ بات مکمل تفصیل اور تحقیقی طریقے سے پڑھانی ہے۔ صرف زبانی منع کرنے سے اکیسویں صدی کے بچوں کو ہم اتنے پچیدہ خطرات سے بچا نہیں سکتے۔ آدھی بات بتائی اور آدھی چھوڑ دی تاکہ کوئی بھی عیار ذہنی مریض اس لاعلمی کا فائدہ اُٹھالے۔
بچوں کے جنسی تحفظ کے لیے کی گئی سماجی تحقیق میں حصہ لینے والے تمام اساتذہ یک زبان ہو کر متفق تھے کہ سب سے اہم مضمون تو دراصل پڑھایا ہی نہیں جاتا، بچوں کے جسمانی اور جنسی تحفظ کا مضمون، جو کے ایک شجر ممنوعہ بن گیا ہے۔ لیکن ہماری روائتی کج بحثی آڑے آجاتی ہے۔ سماجی خوف اور غیرزمہ دار لوگ جو بلاوجہ غلط راستہ بتانے اور تنقید کرنے کے شوقین ہیں وہ ہر نئی سوچ کو اپنی کم علمی کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ حضرت علیؑ کا قول ہے کہ۔ تمہارے بچے ایک فرق زمانے میں پرورش پاتے ہیں اُن کا مقابلہ اپنے زمانے سے مت کرو۔ یورپی ممالک جو کہ اپنے تعلیمی معیار کے لئے مشہور ہیں، وہاں ٹیچنگ کے لئے مخصوص ٹریننگ کی ضرورت درکار ہے، جنسی تحفظ کی ٹریننگ اُسکا حصہ ہے۔ اُس کے باوجود اپنی نئی تحقیقات میں اُنہوں نے زور دیا ہے کہ بچوں کو مخصوص ڈرل اور تربیت کی مزید ضرورت ہے۔ کیونکہ بچے فطرتی طور سے معصوم ہوتے ہیں اور باتوں میں آجاتے ہیں، زبانی کلامی بات کو سمجھ نہیں پاتے۔ اس لئے اس کورس میں مزید ا ضافہ کریں۔
دوسری طرف ہم ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بچے کو صرف انکل سے ٹافی لینے سے منع کرنا ہی کافی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ سماجی تجربات کے گئے، سماجی تجربہ کی لیبارٹری دراصل سوسائٹی ہوتی ہے، جہاں یہ تحقیق کی جاتی ہے اور پھر ایک مفروضے کے بجائے ایک مستند نتیجہ نکلتا ہے۔ ان تمام تجربات نے ایک بات ثابت کی، بچے کچھ جھجھک اور شرم کے بعد، اکیلے ساتھ چل پڑنے کو مان جاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ پھر خطرناک مشکل سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ جبکہ اس بچے کو یہ علم ہے کہ اگر امی کو یہ پتہ چل گیا تو وہ ناراض ہوں گی۔ لیکن ایڈونچر کا شوق امی کی ناراضگی پر حاوی ہو جاتا ہے۔
معصوم زینب کی سی سی ٹی وی کی فوٹیج میرے ذہن پر پیوست ہے، دل تڑپ جاتا ہے اس کو ایک بھیڑے کے ساتھ ہنستا اچھلتا جاتا دیکھ کر، کاش کہ وقت پلٹ سکتا، کاش کو ئی ٹائم مشین ہوتی اور ہم سب چیخ کر روک سکتے، زینب بیٹا رُک جاوٗ مت جاوٗ، تمہاری جان چلی جائے گی۔ لیکن سوائے روز رونے کے میں زینب کو بلا نہیں سکتی۔
مگر ہم اس اندھیری گلی پر کھڑے ہو سکتے ہیں، جو بچے ہیں اُن کو روک سکتے ہیں، اُنکو غلط راستہ اور غلط گلی میں جانے سے بچا سکتے ہیں۔ اُ ن کو بچا لیں، اُن کو یہ تعلیم دینا کہ خطرہ کتنی شکلوں کا ہوسکتا ہے اور کس کس طرح سے بچوں کو ورغلانے کی صلاحیت رکھ سکتا، بتانا اہم ہے۔ ورنہ بھیڑیا اس طرح موقع تاک کر، اکیلے معصوم کو دبولوچ لے گا اور ہم صرف روتے رہیں گے۔

بشکریہ ہم سب