گزشتہ ماہ قصور میں کم
سن بچی زینب کا واقعہ سامنے آنے کے بعد صرف 15 روز میں ایک اندازے کے مطابق ملک
بھر سے ایسے 100 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔
اسلام
آباد — پاکستان میں گزشتہ چار برسوں کے دوران بچوں سے زیادتی کے 17 ہزار
سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جو کہ ملک میں بچوں کی حالتِ زار کی ایک سنگین تصویر پیش
کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کی وفاقی
وزارت کی طرف سے اس ضمن میں ایک رپورٹ بدھ کو قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ہے جس کے
مطابق 2013ء سے 2017ء کے دوران ملک بھر میں 17862 ایسے کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ ان
واقعات میں ملوث صرف 112 مجرموں کو سزائیں ہوئیں۔
یہ رپورٹ بچوں سے
زیادتی کے خلاف کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'ساحل' کے اشتراک سے تیار کی
گئی ہے جس کے مطابق سامنے آنے والے ان واقعات میں سے 10620 میں بچیوں جب کہ 7242
میں بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
مزید برآں بچوں سے
زیادتی کے مرتکب صرف 112 افراد کو ہی انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکا جن میں سے 25
کو موت جب کہ 11 کو عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ دیگر کو مختلف مدت کی قید کی
سزائیں دی گئیں۔
'ساحل' سے وابستہ ممتاز
گوہر کہتے ہیں کہ ملک میں بچوں سے متعلق صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے
لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں ہر روز کم از کم 11 بچے زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔
تاہم ان کے بقول ماضی
کی نسبت مؤثر آگاہی مہم کی بدولت لوگ اب ایسے واقعات کو چھپانے کے بجائے اس کے
خلاف آواز اٹھانے لگے ہیں جو کہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے ایک حوصلہ افزا پیش
رفت ہے۔
بدھ کو وائس آف امریکہ
سے گفتگو میں ممتاز گوہر نے بتایا کہ گزشتہ ماہ قصور میں کم سن بچی زینب کا واقعہ
سامنے آنے کے بعد صرف 15 روز میں ایک اندازے کے مطابق ملک بھر سے ایسے 100 سے زائد
واقعات رپورٹ ہوئے۔
ممتاز گوہر کہتے ہیں کہ
بچوں کے تحفظ کے بارے میں بھرپور اور مسلسل آگاہی مہم جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ چند
ایک بنیادی لیکن اہم امور پر ابھی سے کام شروع کر کے مستقبل میں صورتِ حال کی اس
سنگینی کو کم کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے۔
"سزاؤں کو نہ صرف
بڑھایا جائے بلکہ ان پر عمل درآمد میں کم سے کم وقت لگنا چاہیے۔ اس کی طرف زیادہ
توجہ دینے کی ضرورت ہے۔۔۔ فوری ایکشن یہ ضروری ہے کہ پولیس میں اصلاحات ہوں۔ لوگ
پولیس کے سامنے جانے سے ڈرتے ہیں۔ پولیس اور لوگوں کے درمیان دوستانہ تعلق کیسے
پیدا کیا جائے۔۔۔ بچوں سے متعلق دوستانہ رویہ رکھنے والے پولیس اسٹیشن بنانے کی
ضرورت ہے کہ جہاں کوئی متاثرہ شخص جائے تو وہ آزادانہ طریقے سے اپنے معاملے کی ایف
آئی آر درج کرائے۔"
اس ضرورت کا ادراک خود
حکومت کو بھی ہے جس کے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ممتاز احمد تارڑ نے بدھ کو
قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ برسوں میں مؤثر قانون سازی
تو کی گئی ہے لیکن پولیس کے تفتیشی نظام اور نظامِ انصاف میں پائے جانے والے سقم
کی وجہ سے قانون پر ان کے بقول مؤثر عمل درآمد نہیں ہو پاتا۔
بشکریہ اردوVOA