جس معاشرے نے جنما ہو، اس کے اصولوں کی پاس داری نہ جانے کیوں لوگوں کے لیے واجب ٹھہر جاتی ہے۔ عوام کی اکثریت معاشرے کے بنائے ہوئے ریت رواجوں کو بلاچوں و چرا تسلیم کر کے ساری زندگی اپنی پیدائش کا قرض اتارتی رہتی ہے، جب کہ اندرونی گھٹن کا شکار کچھ افراد ان بے اصل اصولوں کے آگے سر اٹھانے کے جرم میں نہ صرف باغی قرار پاتے ہیں بلکہ ہر سطح پر ناپسند قرار دے کر رد کر یے جاتے ہیں۔ یہ اٹھنے والی آواز بدقسمتی سے اگر کسی عورت کی ہو، تو وہ نہ صرف باغی بلکہ بے حیا بھی قرار پاتی ہے۔ افسوس کہ تیسری دنیا کے ممالک میں معاشرے کی غیرحقیقی رسومات اور طور طریقوں کا ایک بڑاہدف عورت ہی کی ذات ہے۔ کچھ ظالمانہ قوانین تو وہ ہیں جو عورتوں کو موت کے دروازے سے اندر بھی دھکیل دیتے ہیں پھر بھی ان قوانین کے لیے معاشرتی آمادگی کا در بن نہیں کیا جاتا۔ ان دشمن قوانین کے سامنے گھٹنے ٹیک ٹیک کر صنفِ نازک کا اس قدر استحصال ہو چکا ہے کہ اب تو شاید کھودینے کو بھی بہت کچھ نہیں بچا۔ بھلا میں کیسے اس معاشرے کے انصاف پر نوحہ نہ لکھوں، جس میں مردانہ بیڑیاں نازک قدموں میں ڈال کر من مانی راہیں متعین کردی جاتی ہیں، جن پر چلنے کے لیے عورت کو یوں مجبور کیا جاتا ہے گویا وہ ریت رواج کوئی شرعی حکم ہو۔ ہمیشہ معاشرہ ہی بتاتا ہے کہ اے عورت! تجھے چلنا کیسے ہے؟ بولنا کیسے ہے؟ سہنا کیسے ہے اور سہہ کر پھر چپ رہنا کیسے ہے؟
اس خاموشی کو توڑنے کے لیے میرا موضوع بہت اہم ہے۔ مجھے خالص زنانہ مسئلے پر مردانہ توجہ درکار ہے۔ موضوع کی طرف آنے سے پہلے میں چاہوں گی کہ ایک لمحے کے لیے سب بھول جائیے۔ بھول جائیے کہ آپ ایک مرد ہیں، عورتوں پر اپنی صلاحیتوں اور طاقت کے بل پر قوام بنائے گئے ہیں، ذرا سی دیر کو بھول جائیے کہ معاشرہ اور مذہب آپ کو عورتوں سے زیادہ اختیارات سونپتا ہے۔ بس اتنا یاد رکھیے کہ آپ ایک انسان ہیں اور آپ کے سینے میں ایک دردمند دل ہے۔ میں آپ سے لٹنے پٹنے واؒ لی عورتوں کا غم بیان کرنے نہیں جا رہی، نہ مختاراں مائی سے لے کر ننھی زینب تک اور سمیرا سے لے کر اسما کے قتل تک کے واقعات دوہرا کر ہم دردیاں سمیٹوں گی، بلکہ میں اس مسئلے کی بات کروں گی جس کا سامنا آپ میں سے تقریباً ہر ایک کے گھر کی خواتین کرتی ہیں، مستقل بنیادوں پر اسے جھیلتی ہیں اور وہ ہے موٹر سائیکل پر خواتین کے بیٹھنے کا خالص پاکستانی اور خطرناک ترین زاویہ۔
افسوس کا مقام ہے کہ یہاں لڑکی کا قد بچپن کی حدود توڑ کر نکلتا نہیں وہاں اس پر بہت ساری پابندیوں کے ساتھ یہ پابندی بھی عائد کردی جاتی ہے کہ اب وہ مردوں کی طرح موٹر سائیکل پر دونوں طرف قدم جماکر محفوظ طریقے سے سفر نہیں کرسکتی بلکہ دونوں پاؤں ایک طرف، آدھی سیٹ پر ٹکی ہوئی، ہر جھٹکے پر پھسلتی ہوئی، خود کو بچاتی ہوئی وہ زندگی اور موت کے درمیان معلق ہوکر سفر طے کرنے کی پابند ہے۔ میرے نزدیک یہ عورت کو عورت ہونے کے جرم میں دی جانے والی ایک بھیانک پاکستانی سزا ہے۔
آج دنیا کا کون سا کونا ایسا ہے جہاں موٹرسائیکل کا سفر عام نہیں، لیکن مجھے پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا ملک نظر نہیں آتا جہاں موٹر سائیکل جیسی خطرناک سواری کو خواتین کے لیے مزید خطرناک بنا دیا گیا ہے۔ موٹر سائیکل پر بیٹھنے کا یہ نسوانی طریقہ دنیا میں کہیں بھی محفوظ تصور نہیں کیا جاتا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ شرم و حیا کی جو اوور ڈوز پلا کر یہاں لڑکیاں جوان کی جاتی ہیں، اس کے زیراثر وہ موٹر سائیکل پر سفر کے دوران باپ یا بھائی کو پکڑ کر بیٹھنے کے تصور سے ہی پانی پانی ہوجاتی ہیں۔ دونوں گھٹنے جوڑے، ایک طرف سارا بوجھ ڈالے اور موٹر سائیکل کی سیٹ پکڑ کر بیٹھنے والی یہ عورتیں کسی بھی حادثے کی صورت میں زیادہ نقصان سے دوچار ہوتی ہیں اور بہت سی تو معلوم منزل سے ان جانے سفر پر بھی روانہ ہوجاتی ہیں۔
پاکستانیوں کی اکثریت کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے ہے۔ ذرائع آمدورفت کے لیے، خواتین کے پاس ذاتی گاڑیوں کا ہونا یا رکشے اور ٹیکسیوں کے اخراجات اٹھانا ممکن ہی نہیں۔ ایسے میں موٹر سائیکلوں کے ذریعے سفر کو سہل بنانا پاکستانی خواتین کے لیے نسبتاً آسان ہے۔ کوئی عورت اگر چاہے بھی کہ وہ محفوظ سفر کی خاطر مردوں کی طرح موٹر سائیکل پر بیٹھ جائے، تو مرد ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ انہیں اپنی عزت کے خراب ہونے اور رسوائی کا اندیشہ ہوگا اور وہ تماشا بن جانے کے ڈر سے اپنے گھر کی عورتوں پر اس سواری کو حرام تو کر دیں گے پر کسی بھی قیمت پر ان کے لیے یہ سفرمحفوظ نہیں بنائیں گے۔ میرے آس پاس کتنی ہی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ خواتین غیرمحفوظ طریقے سے بیٹھ کر اپنا توازن قائم نہ رکھ سکیں اور ذرا سے جھٹکے میں ہی موٹر سائیکل سے گر کر جاں بحق ہوگئیں یا پھر شدید زخمی ہوگئیں۔ حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ بیٹھنے کا یہ طریقہ نہ صرف عورتوں کی بلکہ ان کی گود سے چمٹے ہوئے ننھے بچوں کی جانوں کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے، لیکن سلام ہے مرد کی عزت اور غیرت کو! جو انسانی جان سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔
عورتوں کی جان کی اہمیت تو ریاست کی نظر میں بھی کچھ زیادہ نہیں۔ اگر ہوتی تو کم از کم دورانِ سفر عورتوں کی حفاظت کے لیے ان کے ہیلمٹ پہننے کو بھی مردوں کی طرح لازمی قرار دیا جاتا، اگرچہ ہیلمٹ پہننے کا قانون سب کے لیے یکساں ہے، لیکن میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اسے استعمال نہ کرنے پر کسی عورت پر جرمانہ عاید ہوا ہو یا روک کر تنبیہ بھی کی گئی ہو۔ کچھ نہیں تو لمبی لمبی چادروں اور عبایا کے ساتھ موٹر سائیکل پر سفر کرنا ممنوع قرار دیا جاتا، جس کی وجہ سے آئے دن سڑکوں پر خوف ناک حادثات رونما ہوتے ہیں یا پھر موٹرسائیکل پر بیٹھنے کے اس زنانہ طریقے پر سخت پابندی عائد کردی جاتی۔ لیکن ریاست بھی عام افراد کی طرح شاید عورتوں کے لیے معین کردہ اس طریقۂ سفر کو کو شرعی سمجھ کر تسلیم کرچکی ہے۔
اس مسئلے کا میرے نزدیک واحد حل یہی ہے کہ اپنی خواتین کو موٹر سائیکل چلانا سکھائیے۔ اس ٹیبو کو توڑیے۔ اپنے پیچھے غیرمحفوظ طریقے سے بٹھا کر سفر کرنے کے بجائے انہیں نقل و حرکت کے آزادانہ مواقع فراہم کیجیے کہ وہ بھی آپ مردوں کی طرح اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالے بنا سفر کرسکیں۔ مجھے یقین ہے اس تجویز پر تمام مرد حضرات ضرور غور کریں گے، کیوں کہ یہاں معاملہ مختاراں مائی یا ننھی زینب کا نہیں بلکہ آپ کی اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی زندگیوں کا ہے۔