ماہرِ نفسیات کی ڈائری: جنس دوستی اور پیار کا فطری اظہار ہے

’ہم سب‘ پر شادی اور جنس کے بارے میں میرا کالم چھپنے کے بعد مجھے اتنے زیادہ خطوط موصول ہوئے کہ ان سب کا جواب دینا میرے لیے ناممکن تھا۔ پہلے تو میں نے سوچا میں وجاہت مسعود اور عدنان کاکڑ سے کہوں کہ وہ ’ہم سب‘ پر میرے لیے ON LINE THERAPY WITH DR SOHAIL کا کلینک بنا دیں اور میں اپنے کلینک سے چھٹی لے کر اس کلینک پر کام کرنا شروع کر دوں لیکن پھر مجھے اندازہ ہوا کہ ایسا ممکن نہیں ہے [میرے کلینک میں مریضوں کی فہرست طویل ہے۔ آن لائن کلینک پر بھی قطار لمبی ہو جائے گی] تو سوچا کہ کیوں نہ میں ان سب خطوط کا اکٹھے جواب دوں اور ایک اور کالم لکھوں تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کر سکیں۔
میں نے پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ نہ تو میں کوئی مولوی ہوں نہ پروہت‘ نہ پنڈت ہوں نہ پادری۔ میں ایک نفسیاتی معالج ہوں اور ماہرینِ نفسیات انسانی مسائل کو طبی اور نفسیاتی حوالے سے سمجھنے کی اور پھر ان کے حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
پہلا مسئلہ ـ MASTURBATION خود وصلی
طب کی نگاہ سے جب بچے جوان ہونے لگتے ہیں تو ان کے جسمانی ہارمون بدلتے ہیں چاہے وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں اور وہ اپنے جنسی اعضا کو چھو کر خوشی‘ مسرت اور لذت محسوس کرتے ہیں۔ طبی اور نفسیاتی حوالے سے یہ ایک فطری عمل ہے اور نارمل ہے۔ انگریزی میں اسے ماسٹربیشن کہتے ہیں، عام لوگ اسے جلق کہتے ہیں اور ساقی فاروقی اسے خود وصلی کہتے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات کے لیے جو جلق لگاتے ہیں وہ نہیں بلکہ جو جلق نہیں لگاتے وہ فکرمندی کا باعث ہوتے ہیں۔ خود وصلی اپنے جسم کو سمجھنے‘ اس سے دوستی اور پیار کرنے میں ممد ثابت ہوتی ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ کوئی اچھی چیز بھی ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو اچھی نہیں رہتی۔
دوسرا مسئلہ: ORAL SEX دہنی مباشرت
جو لوگ جلق لگانے کو برا یا گناہ نہیں سمجھتے وہ بھی دہنی مباشرت کے بارے میں فکرمند اور پریشان رہتے ہیں اور یہ پریشانی اس لیے نہیں کہ وہ اس سے لذت حاصل نہیں کرتے بلکہ اس لیے کہ ان کی بیویاں اسے پسند نہیں کرتیں۔
دہنی مباشرت کے حوالے سے مشرقی اور مغربی عورتوں کے رویے میں نمایاں فرق ہے۔ میرا ایک پاکستانی مریض ہے جس کی بیوی کنیڈین ہے۔ اس نے مجھے پچھلے ہفتے بتایا کہ اس کی بیوی دہنی مباشرت کے بعد جب اسے بوسہ دینا چاہتی ہے تو وہ گھبرا جاتا ہے کیونکہ وہ مادہ منویہ کو ناپاک سمجھتا ہے۔ اس کی کنیڈین بیوی نے اس سے کہا کہ تم پاکستانی مردوں کا SEMEN  کے بارے میں رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ تم منی کو پیشاب کی طرح ناپاک مانتے ہو کیونکہ تم اسے EXCRETION سمجھتے ہو جب کہ وہ دودھ کی طرح ایک SECRETION ہے۔ اسی لیے اسے LOVE MILK کہا جاتا ہے۔ اس مریض کی کنیڈین بیوی نہ صرف دہنی مباشرت کرتی ہے بلکہ کرواتی بھی ہے۔
تیسرا مسئلہ: جنسی خواہش کی کمی
میں نے اپنے پچھلے کالم میں جنسی خواہش کی کمی کی صرف ایک وجہPTSD  بتائی تھی۔ اس کا مقصد جوڑوں کا ایک دوسرے کے بارے میں ہمدردی پیدا کرنا تھا تا کہ ان کے درمیان ایک سنجیدہ مکالمے کا آغاز ہو سکے۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ جنسی خواہش کی کمی کی جو اور وجوہات ہیں میں ان کے بارے میں بھی کچھ لکھوں۔ چونکہ وجوہات بہت سی ہیں اس لیے اس کالم میں صرف چند ایک کا ذکر کروں گا۔
بعض جوڑوں کی شادی کے چند مہینوں یا سالوں کے بعد جنس میں دلچسپی کم ہونے لگتی ہے کیونکہ انہیں اس کی عادت سی ہو جاتی ہے۔ بعض کے لیےMONOGAMY LEADS TO MONOTONY  ۔
بعض جوڑوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تنہائی کا ہے۔ انہیں رومانوی موڈ میں آنے کے لیے تخلیہ چاہیے ہوتا ہے جہاں وہ FOREPLAY  کر سکیں۔ اگر ایسا وقت یا جگہ نہ ملے تو موڈ خراب ہو جاتا ہے اور جنسی خواہش آہستہ آہستہ کم ہونے لگتی ہے۔
بعض جوڑوں میں شوہر یا بیوی شادی کے باہر ایک محبوب تلاش کر لیتے ہیں جس کے بعد محبوب سے جنسی خواہش زیادہ اور شوہر یا بیوی سے جنسی خواہش کم ہونے لگتی ہے۔ کنیڈا میں جوڑے کہتے ہیں
WHEN THERE IS A MARRIAGE WITHOUT LOVE, THERE IS ALSO A LOVE WITHOUT MARRIAGE.
میں اپنے کلینک میں ایسے جوڑوں سے ملا ہوں جن کے لیے صفائی ایک بڑا مسئلہ ہے اگر ان کا شریکِ حیات روزانہ غسل نہیں کرتا اور اپنے جسم کو صاف ستھرا اور خوشبودار نہیں رکھتا تو وہ اس کے ساتھ مباشرت نہیں کر سکتے۔ عدنان کاکڑ نے ہم سب پر ایک مضمون کا لنک چھاپا تھا جس میں ایک شوہر نے اس لیے اپنی بیوی کو طلاق دی کیونکہ اس نے ایک سال سے غسل نہیں کیا تھا۔
بعض جوڑوں میں جنسی خواہش بچے پیدا کرنے کے بعد کم ہونے لگتی ہے۔ میں ایسی عورتوں سے ملا ہوں جو ماں بننے کے بعد شوہر سے زیادہ اپنے بچوں میں دلچسپی لیتی ہیں۔ بعض دفعہ شوہر اپنے ہی بچوں سے حسد کرنے لگتے ہیں کیونکہ ان بچوں نے ان کی محبوبہ ان سے کھو لی ہوتی ہے۔ بچوں اور شوہر کی محبت میں توازن قائم رکھنا ایک مشکل فن ہے۔
بعض جوڑوں میں جنسی تعلقات اس لیے کم ہوتے ہیں کیونکہ یا تو شوہر گے ہوتا ہے یا بیوی لیسبین اور انہوں نے خاندان کے دبائو کی وجہ سے شادی تو کر لی ہوتی ہے لیکن وہ جنسی تعلقات سے محظوظ نہیں ہوتے کیونکہ وہ جنسِ مخالف میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جنس صرف جوانی کا مشغلہ ہے۔ وہ جوں جوں عمر رسیدہ ہوتے ہیں توں توں جنس میں ان کی دلچسپی کم ہونے لگتی ہے۔۔ کینیڈا میں مرد اور عورتیں ستر کی دہائی میں بھی جنس سے محظوظ ہوتے ہیں [ضرورت پڑے تو مرد VIAGARA اور عورتیںBIO-IDENTICAL HORMONES استعمال کرتی ہیں] جبکہ مجھے کئی مشرقی شوہر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں ’میں اور میری بیوی دس برس سے بہن بھائی کی طرح رہ رہے ہیں‘
میں نے یہ واقعات اس لیے لکھے تا کہ قارئین کو اندازہ ہو کہ جنسی خواہش کی کمی کی بہت سی وجوہات ہیں۔
ہم اپنے کلینک میںGREEN ZONE THERAPY  کا استعمال کرتے ہوئے ہر جوڑے کا خصوصی انٹرویو لیتے ہیں اور پھر ہر جوڑے کے لیے ایک خاص علاج تجویز کرتے ہیں۔ خصوصی مشوروں کے ساتھ ساتھ ہم انہیں دو عمومی مشورے بھی دیتے ہیں جس سے سارے جوڑے استفادہ کر سکتے ہیںْ۔ وہ دو مشورے یہ ہیں
۱۔ ہفتے میں ایک دن آدھ گھنٹے کی میٹنگ کریں‘ اس ہفتے کے مسائل پر تبادلہِ خیال کریں اور ان مسائل کا مل جل کر حل تلاش کریں
۲۔ ہر ہفتے میں ایک دن ڈیٹ پر جائیں۔ لنچ کریں‘ ڈنر کھائیں‘ فلم دیکھیں‘ کونسرٹ سنیں ‘باغ میں سیر کو جائیں‘ آئس کریم کھائیں‘ ہنسیں کھیلیں مسکرائیں ‘لطیفے سنائیں اور محبت بھری باتیں کریں۔ میری نگاہ میں ڈیٹ صرف غیر شادی شدہ لوگوں کے لیے ہی نہیں شادی شدہ جوڑوں کے لیے بھی بہت سود مند ہے۔ جوڑے جب ڈیٹ کرتے ہیں تو ان کی رومانوی زندگی کامیاب ہوتی ہے اور انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ جنس ایک شجرِ ممنوعہ نہیں ہے بلکہ دوستی اور پیار کا فطری اظہار ہے۔

یہ بھی پڑھیں۔


ماہرِ نفسیات کی ڈائری : میاں بیوی جنس سے بیزار کیوں ہو جاتے ہیں؟



بشکریہ ہم سب