پاکستانیوں کو غصہ کیوں آتا ہے؟

مجھے چین میں آٹھ سال قیام کا موقع ملا اور اس طویل عرصہ میں صرف ایک آدھ مرتبہ ہی چینی لوگوں کو سڑک پر جھگڑا کرتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ اور تب میں سوچا کرتی تھی کہ ہم پاکستانیوں کو اتنا غصہ کیوں آتا ہے، ہم گھروں میں، سڑکوں پر، کام کی جگہوں پر لڑتے جھگڑتے کیوں رہتے ہیں۔ میں نے سڑکوں پر دو آدمیوں کے درمیان ہونے والے جھگڑے میں ایسے لوگوں کو بھی کودتے اور مار پٹائی میں حصہ لیتے ہوئے دیکھا ہے جن کا اس جھگڑے سے کوئی لینا دینا بھی نہیں ہوتا۔ شاید ہم موت کی خفیہ خواہش لئے پھرتے ہیں۔ یا بقول منیر نیازی، مرنے کا شوق رکھتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کے بقول غصہ ایک نارمل اور صحتمند جذبہ ہے اور بذات خود یہ مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اگر غصہ کی بدولت آپ آپے سے باہر ہو جائیں اور ہوش و خرد کا دامن چھوڑ بیٹھیں تو پھر یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اپنے غصے کی وجہ ڈھونڈی جائے اور مسئلے کو حل کیا جائے۔ آغا خان یونیورسٹی کے ڈاکٹر موسےٰ مراد کا کہنا ہے کہ پاکستانی سماج ابھی تک لاشعور یا تحت الشعورکے مرحلے میں رہ رہا ہے اور ہم نے ابھی تک شخصی احترام اور ضمیر کی آواز سننا نہیں سیکھا ہے۔ شیما کرمانی کے بقول ہم ایک قابل نفرت گروہ بن گئے ہیں، ہم میں سے ایک نام نہاد قابل احترام شاعر کراچی یونیورسٹی کی ایک پروفیسر کو جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے، پسند کی شادی کرنے پر لڑکیوں کو مارا اور جلایا جاتا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل عورت دشمن بیانات جاری کرتی رہتی ہے، اور اب ایک سینیٹر نے ایک ٹی وی شو میں ایک خاتون کو گالیاں دیں اور مارنے کی کوشش بھی کی۔
 پیمرا نے اس چینل کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا ہے جب کہ ہماری رائے میں سب سے پہلے سینیٹ کے چیئرمین کو ان صاحب کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرنا چاہئیے تھا۔ ان صاحب کی اپنی پارٹی کے قائد کو بھی ان سے جواب طلبی کرنی چاہئیے۔ انہوں نے ایک خاتون کے بارے میں جو غلیظ زبان استعمال کی اور جس طرح ان کو مکے مارنے کی کوشش کی، اس پر ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئیے۔ ہم امتیاز عالم سے اتفاق کرتے ہیں کہ لوگوں کو، میڈیا کو اور سول سوسائٹی کو عورتوں پر تشدد کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہئیے۔
سوشل میڈیا پر ہمیں اس پروگرام کی جو ویڈیو کلپس دیکھنے کو ملیں،ان سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ حافظ صاحب مغلوب الغضب ہو کر ہوش و خرد کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے تھے۔ ماہر نفسیات جیری ڈیفن بیچر کے مطابق یہ لوگ گرم دماغ کے ہوتے ہیں اور ان میں برداشت کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے۔ یہ لوگ ایسے کیوں ہوتے ہیں، اس کی وجوہات جینیاتی بھی ہو سکتی ہیں اور نفسیاتی بھی۔ کچھ پیدائشی ایسے ہوتے ہیں اور کچھ ہمارے سماجی اور ثقافتی نظام کی پیداوار ہوتے ہیں۔ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ خاندانی پس منظر بھی اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہماری رائے میں تو ایسے لوگوں کوخاص طور پر جب ان کے روئیے دوسروں کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور خطرناک بن جائیں، پبلک لائف کی ذمہ داریوں سے مستعفی ہو کر فوری طور پر سائیکو تھراپی کے لئے کسی ماہر کے پاس جانا چاہئیے۔ حد سے بڑھا ہوا غصہ بائی پولر ڈس آرڈر کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
غصہ اور غیظ و غضب کی کیفیات کا عمرانی تجزیہ بھی ضروری ہے تا کہ ہمیں اپنی سماجی زندگی میں پائے جانے والے تضادات اور تنازعات کا اندازہ ہو سکے۔ ماروی سرمد والے پروگرام کی وڈیو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ سینیٹر صاحب کو اصل میں غصہ بیرسٹر صاحب کی بات پر آیا تھا، ان سے تو وہ نمٹ نہیں سکے اور انہوں نے اپنا سارا غصہ ایک عورت پر اتارا۔ ایک طبقاتی اور پدر سری معاشرے میں اس کے علاوہ اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔ اسی لئے ماہرین عمرانیات غصہ کی سماجی تشخیص میں صنف، عمر اور سماجی طبقے کو سامنے رکھتے ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کی جو لہر آئی ہوئی ہے ،اس نے سینیٹر صاحب جیسے لوگوں کو میتھیو پال ٹرنر کے بقول تائید کی لت لگا دی ہے یعنی جو بات وہ کہیں، دوسرے اس کی تائید کریں اور تائید نہ کی تو وہ آگ بگولا ہو جائیں گے اور مرنے مارنے پر اتر آئیں گے۔ ویسے بھی ٹی وی ٹاک شوز کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پبلک ڈیبیٹ پر غصہ کا کلچر چھایا ہوا ہے۔ ٹاک شوز کے علاوہ خبریں سن کر بھی یا تو آپ کا بلڈ پریشر ہائی ہونے لگتا ہے یا آپ کو ڈیپریشن ہونے لگتا ہے۔ ہمارے چینلز کو ضابطہ اخلاق اور پروفیشنلزم کی اشد ضرورت ہے۔
اور جگر تھام کے بیٹھو کہ اب میری باری ہے، یعنی اب ہم اس ساری صورتحال کو فیمنسٹ نقطہ نظر سے دیکھیں گے۔
میڈیا میں عورت کی تصویر کشی کیسے کی جائے،اس پر پاکستانی فیمینسٹ کئی عشروں سے آواز اٹھا رہی ہیں۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ اب “چار بچوں کی ماں آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی” جیسی سرخیاں کم لگائی جاتی ہیں اور زنا با لجبر کے کیسز میں اخبارات میں متاثرہ خاتون کا پورا نام نہیں دیا جاتا اور چینلز پر اس کا چہرا نہیں دکھایا جاتا۔ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے گذشتہ صدی کا اہم ترین واقعہ 1995ء میں بیجنگ میں ہونے والی عورتوں کی عالمی کانفرنس تھی۔ اس میں میڈیا کے کردار کو بھی اجاگر کیا گیا تھا۔ دنیا بھر میں میڈیا پر فیصلہ سازی کے حوالے سے مردوں کی حکمرانی رہی ہے۔ اور عورتوں کو بجا طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نقطہءنظر کی نمائندگی نہیں ہو پاتی۔
1960ء کے عشرے کی عورتوں کی آزادی کی تحریک جسے فیمینزم کی دوسری لہر بھی کہا جاتا ہے میں عدم مساوات اور امتیازی سلوک کو ختم کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ اور اب سائبر فیمینزم کا زمانہ ہے۔ اس میں صنفی خطوط پر ڈیجیٹل تقسیم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے۔اس نئے میڈیا کو چلانے والے اداروں میں بھی عورتیں یا تو موجود نہیں ہیں یا ان کی خاطر خواہ نمائندگی نہیں ہے۔ اس لئے اب سائبر فیمینسٹس ایسی ویب سایٹس بنا رہی ہیں، جس میں عورتوں کے کاموں کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کے تجربات کو سامنے لایا جاتا ہے۔ آج کل انٹر نیٹ پر فیمینسٹ صحافی چھائی ہوئی ہیں اور کیوں نا ہو، عورتیں نصف دنیا بھی تو ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت عورت کی آواز آن لائن آ گئی ہے۔ اب یہی دیکھ لیجئیے کہ ماروی کے واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر کتنا زبر دست احتجاج ہوا ہے۔
اب عورت دشمن لوگوں اور میڈیا کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہی ہو گا اپنا غصہ عورت پر نہیں اتارئیے بلکہ اسے جہالت اور غربت کے خاتمے کے لئے استعمال کیجئے۔ عورت اور مرد مل کر ہی پاکستان کو ایک ترقی یافتہ قوم بنا سکتے ہیں۔

تنخواہ دار طبقے کا کردار



بشکریہ ہم سب