سو سال پہلے برطانوی خواتین نے اپنے لیے ووٹ کا حق کیا

تصویر کے کاپی رائٹ
ٹرافالگر سکوائرمرکزی لندن کے ٹرافالگر سکوائر میں سو برس قبل حقِ رائے دی کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین کی قدآمد تصاویر آویزاں کرکے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے
پہلی جنگِ عظیم ابھی جاری تھی۔ برطانیہ، جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اس جنگ میں بری طرح الجھا ہوا تھا۔
ایسے میں ایک اور جنگ خود برطانیہ کے اندر برطانوی خواتین لڑ رہی تھیں۔
یہ جنگ تھی حقِ رائے دہی یا ووٹ کے حق کے حصول کی جنگ۔ بالآخر آج سے ٹھیک سو برس پہلے وہ فتح سے ہمکنار ہوئیں۔
چھ فروری 1918 کو ریپریزنٹیشن آف دا پیپل بِل قانون بن گیا جس کے تحت تیس برس سے زیادہ عمر کی خواتین کو ووٹ کا مشروط حق مل گیا۔
دس برس بعد 1928 میں یہ حق غیرمشروط ہوگیا جس سے خواتین کو بھی ووٹ دینے کا ویسا ہی حق حاصل ہوگیا جیسا کہ مردوں کو تھا۔
اگرچہ برطانوی خواتین کی اس جدوجہد میں تشدد کا عنصر دنیا کے لیے ایک دھچکا تھا مگر یہ سیاست میں زبردست تبدیلی کا آغاز بھی ثابت ہوا۔
تصویر کے کاپی رائٹ


Image captionحق رائے دہی کے لیے برطانوی خواتین کی جدوجہدحق رائے دہی کے لیے برطانوی خواتین بعض اوقات تشدد پر بھی اتر آتی تھیں
پچاس عشروں پر محیط اس جدوجہد کے دوران ووٹ کا حق مانگنے والی خواتین نے خود کو زنجیروں سے باندھا، دکانوں کے شیشے توڑے، پوسٹ باکس توڑے، بجلی کے تار کاٹے، اجلاسوں پر ہلا بولا، یہاں تک کے ایک وزیر کے گھر پر بم بھی مارا۔
مگر جس ایک واقعہ نے لوگوں کی توجہ اس تحریک کی جانب موڑی وہ اس تحریک کی سرگرم کارکن ایمِلی ڈیوِسن کا 1913 میں خود کو بادشاہ کے گھوڑے کے سامنے آکر خودکشی کرنا تھا۔
ان کی ایک ساتھی پانکھرسٹ نے اپنی سوانح عمری 'مائی اون سٹوری' میں لکھا ہے کہ ایملی اس بات پر قائل تھیں کہ 'ایک عظیم سانحہ خواتین پر جاری ناقابلِ برداشت اذیت کا خاتمہ کر دے گا۔'
حق رائے دہی کے حصول کے لیے تحریک چلانے والی سینکڑوں خواتین کو جیلوں میں ڈالا گیا جہاں انھوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے لیے بھوک ہڑتال کر دی۔
خواتین کو ووٹ کا حق دینے کے مخالفین کا کہنا تھا کہ عورتیں جذباتی اور غیرذمہ داری ہوتی ہیں اس لیے انھیں یہ حق نہیں ملنا چاہئے۔
دوسرے کئی ملکوں میں خواتین کو ووٹ کا حق پہلے ہی مل چکا تھا۔ نیوزی لینڈ نے 1893، آسٹریلیا نے 1902، فِنلینڈ نے 1906 اور ناروے نے 1913 میں خواتین کو ووٹ کا حق دیا۔
تاہم برطانوی خواتین کو ووٹ کا حق ملنا اس لیے ایک سنگِ میل ہے کہ بعد میں اس کا براہِ راست اثر ان ممالک کی خواتین پر بھی ہوا جنھیں برطانیہ نے عرصے تک اپنی نوآبادیاں بنا کر رکھا تھا۔
پاکستان کے حوالے سے یہ بات قابل افسوس ہے کہ اگرچہ آئین اور قانون خواتین کو ووٹ کا حق دیتا ہے مگر بعض مقامات پر نام نہاد قبائلی رسم و رواج کے نام پر مقامی راہنما انھیں اس حق سے محروم کر دیتے ہیں۔
حد یہ ہے کہ سیکولر جماعتوں کے مقامی قائدین بھی جرگے کے فیصلے سے روگردانی نہیں کر سکتے۔

بشکریہ بی بی سی اردو