نبراس سہیل
مجھے یاد ہے کہ یہ لفظ ’جنس
یا سیکس ‘ کچھ ہی عرصہ پہلے تک بولا یا سنا جانا بھی انتہائی معیوب سمجھا جاتا
تھا۔۔ ( سچ پوچھئے تو مجھے آج بھی بلا ضرورت اس لفظ کے استعمال پر اعتراض ہی
ہے)۔جب ہندی فلموں اور نغموں میں اس لفظ ’سیکسی‘ کو عام فہم کرنے کی غرض سے باقا عدہ
استعمال کیا جانے لگا تو بھی یہ سمجھنے میں ہمیں خاصا وقت لگا کہ ’سیکسی‘ کا معنی
’ حسین یا دلکش‘ لیا جا رہاہے۔ ہمیں تو یہ لفظ ہمیشہ بے حد برا ہی لگا کہ ’ نہیں
نہیں اس کا مطلب تو کچھ اور ہی ہوتا ہے‘ ۔ کوئی دوست آج بھی میری کسی فوٹو پہ کمنٹ
کر دے کہ ’بڑی سیکسی لگ رہی ہو‘ تو یقین جانئے مجھے گالی سے کم نہیں لگتا۔ اس
احساس سے فوٹو ریموو کر دیتی ہوں کہ ضرور اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات ہو گی۔ آج
بچہ بچہ اس لفظ کا استعمال انتہائی سہولت سے کر لیتا ہے۔ یہ اس لفظ کو پھیلانے کے
پراپیگنڈے کی کامیابی ہے۔ ایسے پراپیگنڈے مقبول ہوتے ہوتے جب تک ایک معاشرے کی
عادت نہ بن جائیں تب تک ان کی طرح طرح سے تشہیر جاری رہتی ہے۔ پھر ہم عادی ہو جاتے
ہیں تو ایک نیا پراپیگنڈہ ہمیں ایک قدم اور آگے لے جانے کو تیار ہوتا ہے۔ اور
دیکھتے ہی دیکھتے ہماری اور ہمارے معاشرے کی شکل بگڑتی جاتی ہے میں دکھنے والے
چہروں کی طرح۔ ہم خود اپنی صورت پہچاننے کے قابل نہیں رہتے۔ deforming
mirrors
اب جو بات چل رہی ہے کہ اسکولز میں بچوں کو جنسی تعلیم دی جائے، یہ
بھی کسی ایسے ہی پراپیگنڈہ کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مجھے ایک بات بتائیے، کیا یہ
تعلیم دینا بھی اب سکولز کی ذمہ داری ہے؟ ماں اور باپ کہاں گئے ان بچوں کے؟ دادا،
دادی، نانا، نانی اپنا کردار کیوں ادا نہیں کر رہے؟ اور آپ ہی کہئیے، کہ بچوں کو
وہ باتیں کیوں بتائی جائیں جو وہ جبّلی طور پہ جانتے ہیں؟ ۔ کیا آپ میری اس بات سے
اتفاق نہیں کریں گے کہ جن بچوں کو یہ سب لفظوں میں بتایا نہیں جاتا، وہ بھی بہت
ابتدائی عمر سے یہ سب جانتے اور سمجھتے ہیں۔ کیا آپ اور ہم سکول سے سیکس ایجوکیشن
لے کر آتے تھے؟
بچے بہت چھوٹی عمر یعنی تین، ساڑھے تین سال سے جنسی لذتوں کا ادراک شروع کر
دیتے ہیں۔ اور یہ ادراک ہلکے پھلکے تجربے سے تب گزرتا ہے جب بچے کھیل ہی کھیل میں
کبھی خود کو ، کبھی ایک دوسرے کو چھوتے ہیں۔ کھیل ’گھر گھر‘ کا ہو یا ’ چھپن
چھپائی‘ ، بچوں کو ان احساسات سے رو شناس کرا جاتا ہے۔ آج جہاں جہاں یہ کھیل ناپید
ہیں وہاں کارٹونز بچوں کے جنسی علم و ادراک میں خاصا اضافہ کرنے کو موجود ہیں ۔ تو
جناب، بات تعلیم کی نہ رہی، بات رہی تربیت کی۔ اور تربیت نہ تو محض لفظوں سے کی جا
سکتی ہے ، نہ ہی اس میں اساتذہ کو گھسیٹنے کی کوئی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کی تربیت
گھر سے ہوا کرتی ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ جنسی تعلیم سکولوں میں رائج ہو گئی تو پھر
ایک نیا باب کھل جائے گا کہ اساتذہ اس مضمون کو پڑھاتے ہوئے اپنی حد سے تجاوز کرنے
لگے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے بچوں کی مائیں کہاں ہیں؟ اُن کی وہ نظر کہاں
گئی جو اپنے بچے یا بچی کو تایا، چاچا، ماموں، خالہ کے بچوں کے ساتھ کسی ایسی لذت
کا کھیل کھیلنے سے پہلے ہی روک لیا کرتی تھیں ۔ وہ بھی بنا کچھ کہے کہ جس سے بچے
کی نفسیات کو چوٹ نہ پہنچے۔
کسی دوست ، رشتہ دار ، پڑوسی یا قاری کے ہاتھوں ایسے کسی خطرے میں
پڑنے سے پہلے ہی اپنے بچے کے لئے دوسروں کے غیر ضروری پیار یا قربت کو بھانپ جانے
کا سسٹم بائی ڈی فالٹ ماؤں میں لگا ہوتا ہے۔ ۔ اور خاموشی سے اس کا حل نکالنے کی
صلاحیت بھی غیر اکتسابی ہوتی ہے۔ البتہ اس صلاحیت کو استعمال میں لانے میں آجکل
کمال کوتاہی برتی جا رہی ہے۔ آج مائیں اپنی جاب کی آڑ میں ان ذمہ داریوں سے
کترائیں تو بھی قابلِ معافی نہیں، کجا یہ کہ گھر بیٹھی خواتین (جو زیادہ تعداد میں
ہیں) کا اس ضمن میں لاپرواہی دکھانا۔
لیجئے، ابھی آپ سے بات کر ہی رہی تھی کہ یہاں دبئی کے فیس بُک گروپ
جس کی میں بھی ممبر ہوں، اس میں ایک مسیج شیئر ہوا ہے۔ یہاں قابلِ ذکر ہے۔ ہماری
گروپ کی ایک ممبر نے کل رات غالباً دس بجے، اپنی قریبی سپر مارکیٹ میں ایک شخص کو
اپنے ساتھ لائی ہوئی ایک بچی کو معیوب سے انداز میں چومتے دیکھا تو وہ الرٹ ہوئیں۔
وہ شخص مارکیٹ کے آیئل میں کھڑا بار بار اُس بچی کے ہونٹوں کو چومتا اور کہتا آپ
بھی ایسا کرو نا۔ وہ بچی بھی جواباًچومتی۔’ مما سے کہنا مجھے انکل کے ساتھ پارک
جانا ہے، پھر ہم بہت مزہ کریں گے‘۔یہ سنتے ہی انھوں نے فوراً اپنے موبائیل سے ہاتھ
میں کارنیٹو تھامے اُس بچی کی تصویر لی اور ا سٹیٹس اپڈیٹ کیا کہ ’ رات کے دس بجے
ایک بچی کو کیسے ماں کسی انکل کے ساتھ اکیلے آئس کریم لینے بھیج سکتی ہے۔ خدارا اس
طرح کی لا پرواہیوں سے گریز کریں‘۔ اب آپ ہی بتایئے، اسکول میں گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ
بتاتے ہوئے اس بات کی تعلیم کیسے ہو گی کہ جو وقتی طور پر بچے کو گڈ ٹچ لگ رہا ہے
وہی اصل میں بیڈ ٹچ ہے۔ بچوں کی حفاظت صرف اور صرف نگرانی سے ممکن ہے ۔ جنسی
احساسات کا معاملہ اس قدر حسّاس ہے کہ ’ لفظ‘ کا استعمال اس میں یا الجھاؤ پیدا کر
سکتا ہے یا کوفت۔۔ ایسے پراپیگنڈوں کے پیچھے لگ کر بچوں کے لئے منفی ترغیبات پیش
کرنے کی بجائے، اپنی ذمہ داری سنبھالنا سہل بھی ہے اور ضروری بھی۔ جنسی تعلیم کے
لئے ماں باپ کی خاموش تربیت درکار ہے نہ کہ سکول کا سلیبس۔
بشکریہ ہم سب