غربت ایک تانیثی لفظ تو ہے، مگر ایسے ہی جیسے نسیم اور شمیم لڑکیوں
اور لڑکوں کے بھی نام ہو تے ہیں۔ غربت جنس سے ماورا ہے۔ یہ عورت یا مرد نہیں ہوتی۔
غریب کی لڑکی ہو یا لڑکا، خوشیوں کا بھاؤ تفکرات کے مول چڑھا ہی رہتا ہے۔ خاص طور
پر ایک خاندانی، خود دارغریب کی زندگی میں خوشیوں کا مطلب ہی اگلے چار برس تک قرض
کی ادائیگی ہے۔
جہیز پر پابندی ہو یا شادی کے اخراجا ت پر یا حد بھر اخراجات کا
قانون بنایا جائے، یہ نا قابلِ عمل اور نا قابل فہم باتیں ہیں، جن پر عمل در آمد
نا ممکنات میں سے ہے۔ غربت کے حل کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اور
اگر پابندی لگانی ہی مقصود ہے تو لڑکے کی بھاری بھر کم بری پر بھی پابندی لگائی
جائے۔ وہ بھی خالی ہاتھ جائے اور صرف دلہن کو رخصت کر کے لے آئے۔
مجھے آج تک کسی بیٹی کے غریب والدین نے اپنی بیٹی کی شادی نہ ہو نے کی وجہ اس کا
جہیز نہیں بتائی۔ یہ جملہ میں نے صرف سیاست دان کی تقریر میں ہی سنا ہے کہ کتنی ہی
لڑکیاں جہیز نہ ہو نے کی وجہ سے بن بیاہی رہ جاتی ہیں۔
اگر لڑکیاں بڑھتی عمر کے ساتھ بیٹھی ہیں تو اس کا تعلق غربت سے ہے
نہ جہیز کی کمیابی سے، اس کی وجہ ان کی بد صورتی یا کوئی جسمانی عیب ہو سکتا ہے۔
لیکن غربت ہرگز نہیں، کیوں کہ غریب کی بیٹی کا رشتہ غریب کے گھر سے ہی آئے گا اور
غریب بے چارہ جب خود بری میں بھا ری بھرکم جوڑے اور سونے کے زیورات نہیں دے سکتا
تو ظاہر ہے تقاضا بھی نہیں کرے گا، اور لڑکی والے بھی اتنے معصوم نہیں کہ کسی غریب
کو ڈھیروں جہیز کے ساتھ لڑکی دے دیں گے۔ یوں تو کئی لڑکوں کی بھی شادی ان کی عمر
نکل جانے کے بعد محض اس لیے وقت پر نہیں ہوتی کہ وہ بارات، مہندی مایوں، انہونیوں،
پہنونیوں، بارات اور ولیمے کے جوڑوں، زیورات اور ولیمے کے کھانے کے اخراجات اٹھانے
کے قابل نہیں ہو پاتے۔ غریب کے لیے کسی تفریح کسی خوشی کا کو ئی موقع اس کی خوشی
اور چاہت سے نہیں آتا، ہر خوشی کا احساس اس کی پریشانیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ مگر اس
کا تعلق بھی غریب کی رسم و رواج میں گھری اور دنیا داری میں جکڑی سوچ سے ہے۔
شادی دو انسانوں کے باہمی ملاپ کا نام ہے جو ان کی بنیادی ضرورت
اور حق کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے بڑوں کی تقلید ہے۔ غریب کو شادی کی خوشی اس لیے بھی
راس نہیں آتی کہ وہ بے کار رسومات کے لیے قرض ادھار کرتا ہے۔ گھر میں چند قریبی
رشتے داروں کی موجودگی میں نکاح کر کے رخصتی کر دی جائے۔ اور لڑکا بھی چند دوستوں
اور لڑکی کے گھر والوں کو بلا کر اگلے دن ولیمہ کا کھانا کر دے۔ یوں وہ اپنی دلہن کے
ساتھ بے فکری سے یہ حسین لمحات گزار سکتا ہے، ورنہ دماغ میں خراجات کی تفصیل، اس
کے ماتھے کی سلوٹوں میں دلہن صاف پڑھ سکتی ہے۔
ایک غریب شخص اپنی بیٹی کی شادی کر کے کم از کم ایک فرد کی تین وقت کی روٹی کی فکر
سے نجات حاصل کر کے ایک بڑی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتا ہے، لیکن اس کی لڑکی جس
غریب کے گھر گئی ہے، وہاں وہ اس گھر کا ایسا فرد بن گئی ہے جس کے تین وقت کھانے
اور اگلی نسل تک کی زمہ داری آپڑی ہے۔
شادی اور بچے کی پیدائش یہ دونوں خوشی کے مرحلے غریب کے لیے ایک
کڑا امتحان ہوتے ہیں، لیکن اس امتحان کے پرچوں میں سوالات اس کی زندگی کی کتاب سے
ہی شامل کیے گئے ہیں، تیاری کے بغیر اسے امتحانی فارم نہیں بھرنا چا ہیے تھا۔ اب
پرچہ ادھورا چھوڑنا، اور امتحان میں ناکامی ہونا ناگزیر ہے۔
فکر، غریب کی قریبی ساتھی ہے، شاید آپ کو یقین نہ آئے، لیکن غریب
لوگ صرف میت اور جنازے پر ہی بے فکر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی تفریح کسی
مریض کو اسپتال جا کے دیکھنا ہوتی ہے۔ کیا کبھی آپ نے کسی ہاسپٹل کے کسی سرسبز حصے
میں ان کے بچوں کو کھیلتے اور ان کے بڑوں کو آپس میں ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھا
ہے۔ ان کا افسوس اس وقت دیکھنے کے قابل ہوتا ہے جب ان کا مریض اسپتال سے گھر آجائے
اور یہ اسے دیکھنے نہ جا سکیں۔ ان کی get to gather پارٹیاں کسی میت پر ہی ہوتی ہیں، اس موقع پر ان کا تخلیقی جوہر
اور حسنِ سلوک آپ کو ساری عمر یاد رہے گا، دو دن پہلے مرنے والے نے کیا کہا، وہ
کتنا نیک آدمی تھا، مرتے وقت اس کی زبان پر کیا الفاظ اور تاثرات تھے، جزیات کے
ساتھ ایسی تفصیل، کہ بندے کا جی چاہے کہ وہ ا بھی پٹ سے گرے اور مر جائے۔ اور تو
اور مردہ کے چہرے کا نور تو بیان سے باہر ہوتا ہے۔ جس نے ساری عمر اس کی شکل نہ
دیکھنے کی قسم کھائی ہو وہ بھی اس کا چہرہ دیکھ کر اس کے پرنور ہونے کی تصدیق ضرور
کرتا ہے۔ ان کی سب سے بڑی پکنک قرستان میں جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے ہوتی ہے۔ غریب،
بیماری اور جنازے میں مل بانٹ کر اخراجات اٹھاتے ہیں۔ میت والے گھر میں تین دن تک
محلے پڑوس سے کھانا آتا رہتا ہے ایسے دن خواتین کی قسمت میں سال دو سال میں ہی آتے
ہیں، جب انہیں چولہا چکی سے نجا ت مل جا ئے۔ سو تین دن تک پارٹی چلتی رہتی ہے۔
درسی کتابوں میں جہاں حکومت جنسی تعلیم کا شعور کو اجا گر کرنے کے
لیے اقدامات کا جائزہ لے رہی ہے وہیں سرکاری اسکولوں کی کتب میں خاص طور پر (کیوں
کہ سرکاری اسکولوں میں ہی عام طور پر غریب بچے پڑھتے ہیں ) ایسے مضامین شامل
کروائے جائیں جن میں اپنی آمدنی کے حساب سے اخراجات کے طریقے بتائے جائیں۔ کیوں کہ
غربت شعور کے ساتھ جھیلی جا سکتی ہے اور اس سے نکلا بھی جا سکتا ہے، لیکن اگر پاؤں
چادر سے زیادہ پھیلا لیے جائیں تو دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت آسکتی ہے،
یہ چادر سے نکلے ہوئے قدم جرم کی طرف بھی بڑھ سکتے ہیں اور خود کشی کی جانب بھی۔
بشکریہ ہم سب