تصویر کے کاپی رائٹ محبوبہ
مفیدی جنھوں نے 17 برس کی عمر میں مبینہ طور پر اپنے شوہر کو قتل کیا تھا
انسانی
حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سنہ
2018 کے آغاز کے بعد سے اب تک ایران میں کم ازکم تین بچوں کو پھانسی کی سزا دی گئی
ہے۔
ان تینوں نے قتل کا جرم
18 برس کی عمر سے قبل کیا تھا۔
جمعے کو ہیومن رائٹس
واچ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں ایرانی حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ
فوری طور پر بغیر کسی پیشگی شرط کے 18 سال سے کم عمر بچوں کو موت کی سزا نہ دیں
اگروہ کسی کو قتل کر دیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ
چار جنوری کو کاراج کی جیل میں حکام نے عامر حسین کو ایک تین سالہ بچی کے سے
’زیادتی اور قتل‘ کے جرم میں پھانسی دی ۔ انھوں نے یہ جرم 16 سال کی عمر میں کیا
تھا۔
اسی طری 15 برس کی عمر
میں قتل کرنے والے علی کاظمی کو بھی 30 جنوری کو بشہر جیل میں پھانسی دی گئی۔
ہیومن رائٹس واچ نے
مفیدی کی عم کی تصدیق ان کے آئی ڈی کارڈ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ سے کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسی
تاریخ کو شمالی ایران میں بوشہر نامی جیل میں محبوب موفیدی نامی لڑکی کو پھانسی دی
گئی جنھوں نے سنہ 2014 میں اپنے شوہر کو قتل کیا تھا۔ اس وقت محبوب کی عمر 17 برس
تھی۔
تصویر کے کاپی رائٹ مشرق
وسطیٰ میں ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر سارہ لی وٹسن کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس
منشیات سے متعلق جرائم میں موت کی سزا کے حوالے سے ایران کے اقدامات کا مثبت تاثر
سنہ 2018 میں بچوں کو موت کی سزا کی وجہ سے تباہ ہو گیا ہے
ایران سعودی عرب اور
یمن سمیت ان چند ممالک میں شامل ہے جو پانچ سال پہلے تک مجرم بچوں کو پھانسی کی
سزا دیتے تھے تاہم پھر ایران بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن کا حصہ بنا جو بچوں کی
پھانسی ممنوع قرار دیتا ہے۔
ایران کے کریمینل
ریکارڈ سے متعلق ترمیمی ایکٹ کے مطابق منشیات اور کچھ خاص قسم کے جرائم میں بچوں
کو پھانسی کی سزا نہیں دی جاتی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے
مطابق سنہ 2015 میں ایران میں 567 افراد کو پھانسی کی سزا دی گئی جبکہ اس کے
مقابلے میں سنہ 2015 میں 977 افراد کو پھانسی کی سزا دی گئی۔
سعودی عرب اور چین کے
علاوہ ایران وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ پھانسیاں دی جاتی ہیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو