ویلنٹائن ڈے اور دیگر گناہ وغیرہ


آج پاکستان سمیت دنیا کے اکثر مسلمان و غیر مسلمان ممالک میں ویلنٹائن ڈے منایا جا رہا ہے۔ حالانکہ کئی مقامات پر انتظامی پابندیوں کا بھی اعلان ہوا۔ ایسے بینرز بھی لگے کہ جن پر غیروں کی وضع قطع اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ علماِ کرام نے ویلنٹائن ڈے کی غیر شرعی حیثیت بھی کھول کر بیان کی۔
اس بار تو فیصل آباد کے ایک ارب پتی صنعتی گروپ نے قومی اخبارات میں چوتھائی صفحے کے اشتہارات بھی شائع کروائے کہ
’ایک ویلنٹائن نامی یہودی ( حالانکہ وہ عیسائی تھا ) جو غیر شادی شدہ مرد اور عورت کے تعلقات کو جائز سمجھتا تھا اس کی یاد میں اب مسلمانوں کی بے حیا اور بے شرم نسل نے بھی ویلنٹائن ڈے منانا شروع کردیا ہے۔ اس دن پھولوں اور تحفوں کا تبادلہ کر کے نوجوان لڑکے لڑکیاں اظہارِ محبت کرتے ہیں اور پھر اسلامی اقدار کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ ذرا سوچیے آج ہم یہودیوں کا دن منا رہے ہیں۔ کل کو ہمارے بچے نہ جانے دیوالی و کرسمس سمیت کن کن مذاہب کے غیر اسلامی تہوار منائیں گے۔ ‘
میں ذاتی طور پر ایسے ایمان افروز خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے راست گو مومنوں کی توجہ چند دیگر غیر اسلامی بدعتوں کی جانب بھی دلانا چاہتا ہوں تاکہ ان کی بیخ کنی سے معاشرہ بالکل شفاف ہو جائے۔ مثلاً سرسید احمد خان، مولانا محمد علی، شوکت علی، محمد اقبال، مولانا مودودی، حسن البنا اور سئید قطب کی کوٹ پینٹ ٹائی کے نصرانی لباس میں جتنی بھی تصاویر ہیں ان پر کالک مل دی جائے۔
حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ جناح صاحب کی سوٹ ٹائی والی تصویر کے کرنسی نوٹ واپس لے کر شیروانی والی تصویر شائع کی جائے۔ بلکہ تصویر ہی کیوں شائع ہو؟
تمام پھول فروش بورڈ لٹکائیں کہ یہاں صرف عرس اور جنازے وغیرہ کے لیے پھول اور شادی بیاہ کے ہار دستیاب ہیں۔ 50 برس سے کم عمر حضرات خریداری کی زحمت نہ کریں یا کوئی معتبر آدمی ساتھ لاویں۔
تمام بیکریوں کو پابند کیا جائے کہ وہ کرسمس کیک صرف مسیحوں کو فروخت کریں۔ اس کے لیے مقامی چرچ کا سفارشی لیٹر لازمی قرار دیا جائے۔ اگر کوئی مسیحی، ہندو یا یہودی عید مبارک کہے تو سنی ان سنی کردیں اور ہولی کے دن کوئی ہندو ہمسایہ یا کرسمس کے موقع پر کوئی مسیحی دفتری ساتھی راستے میں مل جائے تو مبارک بادی کے گناہ سے بچنے کے لئے منہ دوسری جانب پھیر کر گزر جائیں۔
چھوٹی عید پر غیر مسلموں کے ہاں سویاں وغیرہ بھیجنے سے پرہیز کریں اور ان کی جانب سے کرسمس کیک اور دیوالی کی مٹھائی وصول کریں ضرور مگر نگاہ بچا کے کچرے میں پھینک دیں۔ تاکہ کسی کی دل شکنی بھی نہ ہو اور اپنا ایمان بھی سلامت رہے۔
دلہن کا سرخ جوڑا، ماتھے کا جھومر، منہ دکھائی، دودھ پلائی، جوتا چھپائی، بوقتِ رخصتی رونا دھونا، مہندی کی رسم میں ڈھولک پر ناچ گانے اور قسم ہا قسم کھانے کی بھرمار، زائد از ضرورت جہیز یا بری کے جوڑے۔ یہ سب ہندوانہ رسمیں ہیں۔ نکاح خواں ایسے بے شرم، بے دین ماحول میں نکاح پڑھانے سے انکار کردیں اور ایسی شادیوں کا گھیراؤ بھی کیا جائے۔
نیز شبِ برات پر پٹاخے پھوڑنے کی دیوالی سے مستعار لی گئی رسم کا سب مل کر بائیکاٹ کریں۔ آتشبازی کے سامان سے بھرے گودام اڑانے میں بھی خاص مضائقہ نہیں۔ تاکہ بانس اور بانسری کے ساتھ بجانے والا بھی بج جائے۔
ایسی تمام مصنوعات کو گھر، دفتر اور کارخانے سے نکال پھینکا جائے جو غیر مسلموں نے تخریبی ذہن سے ایجاد یا ناپاک ہاتھوں سے تیار کی ہیں۔ اس سے نہ صرف یہاں سے وہاں تک جگہ کشادہ ہوجائے گی بلکہ کام کے ساتھ ساتھ ضمیر کا بوجھ بھی راہ سے ہٹ جائے گا۔ صرف وہ مصنوعات خریدیں جو مسلمانوں نے بنائی یا ایجاد کی ہوں۔ اس سے اصراف یک لخت ختم ہوجائے گا اور پیسے کی بے انتہا بچت سے ہر مسلمان مالی آسودگی میں آجائے گا۔
دیکھا گیا ہے کہ نوجوان نسل جو تازہ پھول خریدتی ہے ان سے شیطانی جذبات بیدار ہوتے ہیں مگر تازہ اسلحہ خریدنے سے جذبہِ ایمانی کو جلا ملتی ہے۔ بات بے بات ہنسنے سے دل بے حس ہوتا جاتا ہے مگر زیادہ سے زیادہ رونے سے نرم رہتا ہے۔ لہذا ہنسنے کے اسباب کم سے کم اور رونے کی وجوہات اور بڑھانے کی ضرورت ہے۔
تو کیوں نہ اچھے برے کی تمیز سے عاری اس نئی، بے راہرو نسل کو سنِ شعور میں پہنچنے سے پہلے پہلے لوہے کا ٹوپ پہنا دیا جائے۔ کھوپڑی چھوٹی ضرور ہوجائے گی مگر کھوپڑی میں غیر ضروری بیرونی خیالات گھسنے کی جگہ بھی نہیں رہے گی۔ یوں ہم سب ایک ہی کنوئیں میں ہنسی خوشی رہیں گے۔
کسی اور کی کیا ضرورت۔ ہم اپنے لیے بہت ہیں ناں۔
14 فروری 2016

بشکریہ ہم سب