اقوام
متحدہ کے ادارہ برائے صحت کا کہنا ہےکہ ایڈز کا مرض دنیا بھر میں صحت کا ایک ایسا
مسئلہ ہے جس سے اب تک ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
صرف گذشتہ برس میں ایک
کروڑ افراد ایڈز کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔
ابھی تقریباً تین کروڑ
ستر لاکھ ایسے ہیں جو اس وائرس کا شکار ہیں ان میں سے 70 فیصد افریقہ میں موجود
ہیں۔ 18 لاکھ ایسے ہیں جو سنہ 2017 میں اس سے متاثر ہوئے۔
اس مرض کے پھیلنے کا
آغاز سنہ 1980 میں ہوا۔
آج اس مرض کے خلاف
آگاہی پھیلانے کا دن ہے اور ہم یہاں اس مرض کے بارے میں کچھ ایسی چیزوں پر بات کریں
گے جو کہ غلط ہیں۔
ایچ آئی وی سے متاثرہ لوگوں کے اردگرد رہنے سے
آپ بھی اس میں مبتلا ہو جائیں گے
ایک طویل عرصے تک غلط
تصور تھا جس کی وجہ سے ان سے امتیازی سلوک برتا جاتا تھا۔ اس کے باوجود کہ اس
حوالے سے بہت سی آگاہی کی مہمات چلائی جاتی ہیں۔ سنہ 2016 میں برطانیہ میں 20 فیصد
لوگ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایچ آئی وی ایڈز تھوک اور متاثرہ مریض کی جلد سے
یعنی اسے چھو لینے سے بھی پھیل جاتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ
کسی کو چھونے سے، آنسوؤں سے، پسینے سے، تھوک سے یا پھر پیشاب سے منتقل نہیں ہوتا۔
کن صورتوں میں یہ وائرس
منتقل نہیں ہوتا:
§
ایک ہی ہوا میں سانس لینے سے
§
معانقہ کرنے سے، بوسہ لینے سے یا ہاتھ ملانے سے
§
ایک دوسرے کے کھانے کے برتن استعمال کرنے سے
§
نہانے کے لیے ایک شاور استعمال کرنے سے
§
ایک دوسرے کی ذاتی اشیا استعمال کرنے سے
§
جم میں ایک ہی مشین استعمال کرنے سے
§
ٹائلٹ کی سیٹ کو چھونے سے، دروازے کے ہینڈل کو
چھونے سے
لیڈی ڈیانا ایچ آئی وی ایڈز کے شکار ایک مریض سے ملیں تاکہ اس وائرس
کی منتقلی کے حوالے سے پھیلے غلط تصورات کو ختم کیا جا سکے
ایچ آئی وی ایڈز جسم
میں موجود سیال مادوں کی کسی دوسرے شخص کے جسم میں منتقل ہونے سے ہوتا ہے جیسے
خون، اندام نہانی سیال یا عورت کے دودھ سے۔
غیر روایتی طریقے سے ایڈز کا علاج ہو سکتا ہے
بالکل غلط۔ متبادل
ادویات جو قربت کے تعلقات کے بعد لی جائیں وہ ایڈز کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتیں۔
افریقہ میں اور انڈیا
اور تھائی لینڈ میں جو یہ وہم اور روایت ہے کہ اگر عورت اگر جنسی تعلق کے بعد اپنے
آپ کو صاف کر لے تو کچھ نہیں ہوتا جو کہ بہت ہی خطرناک سوچ ہے۔
اس سے بہت سی نوجوان
لڑکیوں کی زندگی بھی مشکل میں پڑتی ہے اور پیدا ہونے والے بچے بھی ایچ آئی وی ایڈز
کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ روایت 16 صدی میں
شروع ہوئی تھی۔
شاید یہ عبادات اور
مذہبی امور کو سرانجام دینے کے لیے لوگوں کی مدد کرتا ہو لیکن وائرس کو ختم کرنے
میں مدد گار عمل نہیں ہے۔
مچھر ایچ آئی وی پھیلا سکتے ہیں
اگرچہ یہ وائرس خون کے
ذریعے منتقل ہوتا ہے لیکن تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اگر کو خون چوسنے والے
حشرات متاثرہ شخص کے جسم پر حملہ کریں تو اس سے وائرس منتقل نہیں ہوتا۔
1) جب کوئی بھی کیڑا کسی
شخص کو کاٹتا ہے تو وہ اس شخص کا خون دوسرے شخص کے جسم میں منتقل نہیں کرتا جس کو
اس نے پہلے کاٹا ہو۔
2) ایچ آئی وی تھوڑی دیر
کے لیے حشرات کے جسم میں رہتا ہے۔
اس لیے اگر آپ ایک ایسے
علاقے میں ہرتے ہیں جہاں اس مرض سے متاثرہ بہت سے لوگ رہتے ہیں اور مچھروں کی
بہتات ہے تو آپ ان دو چیزوں کو باہم مت ملائیں۔
مجھے اوورل سیکس سے ایڈز نہیں ہو گا
یہ درست ہے کہ اوورل
سیکس میں ایچ آئی وی کے وائرس کی منتقلی کا کم خطرہ ہوتا ہے۔ اس میں 10 ہزار بار
کیے گئے عمل میں چار سے بھی کم کیسز میں یہ وائرس منتقل ہوا۔
لیکن ایچ آئی وی سے
متاثرہ مرد یا عورت سے اوورل سیکس کرنے سے یہ وائرس منتقل ہو سکتا ہے۔ اسی لیے
ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر آپ اوورل سیکس بھی کر رہے ہیں تو کنڈوم استعمال کریں۔
اگر کنڈوم استعمال کیا تو ایچ آئی وی نہیں ہو گا
کنڈوم آپ کو ایچ آئی وی
سے نہیں بچا سکتا اگر وہ سیکس کے دوران پھٹ جائے، سلپ ہو جائے۔
اسی لیے ایڈز کے خلاف
چلائی جانے والی آگاہی مہم میں لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ لیٹیکس شیٹ استعمال
کریں مگر ایچ آئی وی ٹیسٹ بھی کروا لیں۔ اور اگر ٹیسٹ پوزیٹیو آئے تو فوری طور پر
علاج کروائیں۔
عالمی ادارہ صحت کا
کہنا ہے کہ دنیا میں چار میں سے ایک شخص جو ایڈز میں مبتلا ہے اسے علم نہیں کہ وہ
اسکا شکار ہو چکا ہے۔ مطلب یہ کہ نوے لاکھ چالیس ہزار لوگ خود میں موجود اس وائرس
سے لاعلم ہیں۔ اور اس کی دوسروں میں منتقلی کا خطرہ لاحق ہے۔
علامات نہ ہونے کا مطلب ایچ آئی وی نہیں ہے
اس وائرس کا شکار ہونے
والا ایک انسان دس سے 15 سال تک زندہ رہ سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کی کوئی
علامات بظاہر اس کے جسم میں ظاہر بھی نہ ہوں۔
ابتدائی طور پر انفیکشن
کی منتقلی کے بعد ابتدائی چند ہفتوں میں مریض کو بخار محسوس ہو سکتا ہے، سر میں
درد ہو، جسم پر دانے نکل سکتے ہیں اور گلے کا انفیکشن ہو سکتا ہے۔
دیگر علامات میں یہ
ہوتا ہے جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے، جسم میں گھٹھلیاں بن جاتی ہیں، وزن
کم ہو جاتا ہے، کھانسی ہوتی ہے اورپیٹ خراب رہتا ہے۔
اگر علاج نہ ہو تو
انھیں تپ دق ہو جاتا ہے، دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں مسئلہ ہو جاتا ہے، بیکٹریا
انفیکشن ہو جاتے ہیں یا مختلف قسم کے کینسر میں مریض مبتلا ہو جاتا ہے۔ مثلاً جس
میں جسم میں گھٹھلیاں بن جانا یا پھر جسم پر نشانات پر جاتے ہیں جسے کاپوسی
سارکوما کہتے ہیں۔
لوگ ایچ آئی وی کی وجہ سے جلد مر جاتے ہیں
وہ لوگ جو جانتے ہیں کہ ایچ آئی وی میں مبتلا ہیں اور وہ اپنا علاج
کرواتے ہیں وہ صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق 47 فیصد لوگ ایسے ہیں جن کےجسم میں خون
میں ایچ آئی وی اتنی کم مقدار میں ہوتا ہے کہ اس کی خون کے ٹیسٹ میں تشخیص نہیں ہو
سکتا۔
ایسے میں جب یہ لوگ صحت
مند لوگوں کے ساتھ سیکس کرتے ہیں تو ان میں بھی وائرس منتقل نہیں ہوتا۔
تاہم اگر یہ اپنا علاج
بند کر دیں تو پھر دوبارہ سے ان میں ایچ آئی وی کا لیول بڑھ جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا
کہنا ہے کہ دنیا میں دو کروڑ 17 لاکھ ایسے افراد ہیں جنھوں نے سنہ 2017 میں ایڈز
کے علاج کے لیے دوا لی جبکہ یہ تعداد سنہ 2010 میں 80 لاکھ سے زیادہ تھی۔ یہ تعداد
کل مریضوں کی 78 فیصد ہے جو کہ جانتے ہیں کہ ان کا مرض کس مرحلے پر ہے۔
متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے کو ہمیشہ ایڈز
ہوتا ہے
یہ ضروری نہیں کہ ماں
جس کے خون کا نمونہ مثبت نہ ہو کے ہاں ایسے بچے پیدا ہوں جن میں یہ وائرس منتقل نہ
ہو۔
بشکریہ بی بی سی اردو