مبشر علی زیدی
ناصر عباس نیر اردو ادب کے اہم ترین نقادوں میں سے ایک ہیں۔ اردو
ادب میں پی ایچ ڈی کے بعد جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلوشپ
حاصل کی۔ سولہ کتابوں کے مصنف ہیں جن میں بیشتر تنقید کی ہیں۔ لیکن وہ افسانہ نگار
بھی ہیں اور ان کے افسانوں کے کئی مجموعی شائع ہوچکے ہیں۔ اخبارات میں ادبی کالم
بھی لکھتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں برسوں پڑھاتے رہے۔ آج کل اردو سائنس بورڈ کے
ڈائریکٹر جنرل ہیں۔
میں نے دریافت کیا کہ ایک زمانہ تھا کہ صحافی سنسرشپ کا شکار ہوتے
تھے تو ادیب شاعر ان کے ساتھ احتجاج کرتے دکھائی دیتے تھے۔ آج کل صحافی سنسرشپ کی
دہائیاں دے رہے ہیں، لیکن ادیب لاتعلق بیٹھے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
ناصر صاحب نے کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ ادیب شاعر براہ راست صحافت
سے منسلک تھے۔ اس وقت سنسرشپ ہوتی تھی تو وہ براہ راست اس سے متاثر بھی ہوتے تھے۔
چنانچہ وہ اس کے خلاف مزاحمت بھی کرتے تھے، سنسرشپ کی شکایت بھی کرتے تھے اور عملی
جہاد بھی کرتے تھے۔ اب صحافت اور ادب میں فاصلہ ہوگیا ہے۔ بہت سے ادیب صحافیوں کو
ادب کا حصہ نہیں سمجھتے اور یہی صورت صحافیوں کی ہے۔ جس طرح آج کے ادیب کو مصوری
کا علم نہیں، موسیقی سے ناواقف ہے، فلم اور تھیٹر کے بارے میں نہیں پتا، اسی طرح
وہ صحافت سے بھی دور ہوگیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے سماج میں عمومی طور پر
لاتعلقی پیدا ہوئی ہے۔ لوگ چھوٹے چھوٹے خانوں میں رہنے لگے ہیں۔ ایک وجہ تو یہ
ہوسکتی ہے۔
دوسری وجہ بالکل سامنے کی صورتحال ہے کہ اردو میں کوئی ایک ادیب
اور شاعر ایسا نہیں جس کی آواز مزاحمتی معلوم ہوتی ہو۔ پہلے فیض صاحب تھے، منٹو
تھے، جالب تھے یا دوسری زبانوں کے شاعر ہوا کرتے تھے۔ ان کی آواز سنائی دیتی تھی
اور اونچے سروں میں سنائی دیتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ادیب نظمیں لکھ رہے
ہیں، افسانے لکھ رہے ہیں، ناول لکھ رہے ہیں۔ ان میں کہیں نہ کہیں وہ جبر کے خلاف
لکھتے ہیں۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ادب میں مزاحمت ختم ہوگئی لیکن وہ جن اداروں یا
طاقتوں کے خلاف ہونی چاہیے، وہاں تک اس کا اثر نہیں ہے۔ ادب میں اگر مزاحمت ہے بھی
تو اسے وہ پڑھتے نہیں ہیں۔
کچھ اور تبدیلیاں بھی رونما ہوئی ہیں۔ پہلے جو ادیب مزاحمت کرتے
تھے، وہ ترقی پسندوں کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ پروگریسو آئیڈیالوجی تھی۔ ساٹھ
ستر کی دہائی کے بعد وہ آئیڈیالوجی ختم ہوگئی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اب ہم بعد از
نظریات عہد میں جی رہے ہیں۔ ترقی پسندوں کی باقیات تو موجود ہیں لیکن یہ سوال بھی
ہے کہ ان کی آواز کیوں سنائی نہیں دیتی۔ اس کا سبب غالباً آئیڈیالوجی کا خاتمہ ہے
اور نئے حالات میں انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سب سے
زیادہ ذمے داری اس ترقی پسند گروہ کی ہے کہ اپنی پوزیشن کو واضح کرے کہ اب وہ کہاں
کھڑے ہیں۔
ایک اور رخ یہ ہے کہ پہلے ادیب صرف اس بات سے متاثر نہیں ہوتے تھے
کہ ان کی چیزیں چھپنے سے روکی جارہی ہیں۔ وہ معاشی صورتحال سے براہ راست متاثر
ہوتے تھے۔ اب صحافیوں اور ادیبوں کا بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جس کی معاشی صورتحال بدل
گئی ہے۔ کارپوریٹ کلچر یا لبرل اکانومی یا گلوبلائزیشن کی وجہ سے لوگوں کے پاس بہت
پیسہ آگیا ہے۔ جن معاشی مسائل کی وجہ سے لوگ مزاحمت کرتے تھے، اب وہ ان کا شکار نہ
ہونے کی وجہ سے مزاحمت نہیں کرتے۔ ایسا نہیں ہے کہ عوام معاشی مصائب کا شکار نہیں
ہیں۔ بالکل ہیں۔ لیکن ادیب ان سے کٹا ہوا ہے۔ ادیب کے پاس پیسہ آیا ہے۔ اچھی بات
ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے ادیب کو نظریات پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
میں نے بتایا کہ اصغر ندیم سید کہتے ہیں کہ ادیب میڈیا سنسرشپ سے
متاثر نہیں ہو رہا اس لیے وہ اس کے خلاف بات نہیں کر رہا۔
ناصر صاحب نے کہا کہ اصغر ندیم سید نے بالکل ٹھیک بات کی کہ جو
خبریں روکی جا رہی ہیں یا کالم روکے جا رہے ہیں، وہ صحافیوں کے روکے جا رہے ہیں۔
صحافیوں کی آواز زیادہ دور تک پہنچتی ہے۔ ادیبوں کی کتابیں نہیں روکی جارہیں۔ آپ
کتاب میں جو مرضی لکھ دیں، وہ چھپ جاتی ہیں۔ رسائل میں آپ چیزیں بھیجتے ہیں، وہ
چھپ جاتی ہیں۔ ادیب اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ ان کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہے
تو وہ کس بات پر احتجاج کریں۔
میں نے کہا کہ حبیب جالب نے سیاست میں حصہ لیا اور جلسوں میں نظمیں
سناتے تھے۔ آج کے ادیب کی سیاست میں دلچسپی ہے یا نہیں؟
ناصر صاحب نے کہا کہ ایک حد تک ٹھیک ہے کہ ادیب شاعر سیاسی
سرگرمیوں سے دور ہوگئے ہیں۔ لیکن ایک بات اور بھی ہے۔ میڈیا ایک دھماکے سے پھیلا
ہے، اس کی رسائی میں اضافہ ہوا ہے، چینل بڑھ گئے ہیں، سوشل میڈیا آگیا ہے۔ ان
چیزوں کی کثرت سے یہ ہوا کہ طاقتور طبقوں نے اپنے بیانیے بہت مہارت سے پھیلائے
ہیں۔ ادیبوں نےان بیانیوں کو چیلنج کرنے کے بجائے انھیں جذب کرنا شروع کر دیا ہے۔
اب کوئی ادیب اگر مزاحمت کرتا ہے تو ادیبوں ہی کا کوئی گروہ اس کی مخالفت کرتا ہے۔
ادیب مختلف گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔
یہ خوفناک صورتحال ہے کہ ادیب مجموعی صورتحال کو سمجھ کر اس کے ذمے
داروں کے خلاف مزاحمت کرنے کے بجائے بعض اوقات ان کا دفاع کرتے ہیں اور ایک دوسرے
پر شک کرتے ہیں۔ ادیب قومی سیاست سے بالکل لاتعلق نہیں ہوئے۔ لیکن کچھ ادیب ایسے
ہیں جو سیاست دانوں اور ان کے پیچھے جو طاقتیں ہیں، ان کا بیانیہ لے کر چل رہے
ہیں۔ ادیبوں میں غیر تنقیدی رویے نے جنم لیا ہے اور وہ سیاسی بیانیوں کو چیلنج
کرنے کے بجائے ان کی توثیق کرنے لگے ہیں۔ جو ادیب انھیں ذرا ہٹ کے نظر آتا ہے، وہ
اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔
میں نے سوال کیا کہ پاکستان میں مارشل لا ادوار میں اور بعض اوقات
نام نہاد جمہوریت میں بھی گھٹن کا ماحول رہا۔ لیکن، بڑا ادب پیدا نہیں ہوا جس کے
لیے ایسے حالات موزوں کہے جاتے ہیں؟
ناصر صاحب نے کہا کہ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ
معاشرے میں گھٹن ہو تو وہاں بڑا ادب پیدا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص جب
اپنے سامنے خطرہ دیکھتا ہے تو اس کے اندر جذباتی اور تخلیقی توانائی بڑھ جاتی ہے۔
اسی طرح جو سماج خطرے میں ہو تو اس میں بڑا ادب پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس کے لیے جس
قدر بہترین تخلیقی توانائی درکار ہوتی ہے، وہ بیدار ہوجاتی ہے۔ افریقا اور لاطینی
امریکا میں نوآبادیاتی دور کے بعد جو بڑا ادب پیدا ہوا ہے، وہ سارا اسی ماحول میں
ہوا ہے۔ برصغیر میں دوسری زبانوں میں بڑا ادب پیدا ہوا ہے۔ لیکن آپ کہہ سکتے ہیں
کہ اردو میں نہیں لکھا گیا۔ عبداللہ حسین، قرة العین حیدر، انتظار حسین، مرزا اطہر
بیگ سب نے بہت عمدہ ناول لکھے ہیں۔ لیکن ویسا عالمی کلاسیکی ادب جیسا دوسرے ملکوں
میں سامنے آیا، وہ نہیں ہے۔ ہمارے ادیب اتنا بڑا ناول نہیں لکھ سکے۔
لیکن ہاں، افسانے لکھے گئے ہیں۔ منٹو جیسا افسانہ نگار ہمارے پاس
ہے۔ اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ منٹو نے تمام بیانیوں کو چیلنج کیا، ان کے بارے میں
سوالات اٹھائے۔ بڑا ادیب بڑے سوال اٹھاتا ہے۔ اس بارے میں حقیقت وہی ہے، جو آپ نے
کہا۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ ادب کو اس طبقے نے اپنا لیا جس کا تعلق
دائیں بازو سے ہے۔ میں حیران ہوں کہ اس وقت جتنے مقبول ناول ہیں، وہ انھوں نے لکھے
ہیں۔ ابویحیٰ ہوں، عمیرہ احمد ہوں، جس طرح سیاست پر بعض غیر سیاسی طاقتوں نے قبضہ
جمالیا، ادب اور ناول پر بھی ترقی پسندوں کے بجائے دائیں بازو والے طبقے نے قبضہ
جما لیا ہے۔ ترقی پسندوں کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔