فحش نگار منٹو اور نئے پاکستان کے وکیل

 

منٹو نے بہت پہلے کہہ دیا تھا، اگر آپ میرے افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ ہی نا قابل برداشت ہے۔ آج منٹو کی وفات کی چھہ دہائیوں بعد بھی، پاکستان سے وہ زمانہ نہیں گزرا، جس میں منٹو کو برداشت کیا جا سکے۔
پڑوس میں نندیتا داس نے اردو میں لکھنے والے سعادت حسن منٹو پر فلم بنائی، ہمارے یہاں ہوا یہ کہ پہلے سینسر بورڈ نے نندیتا داس کی فلم ’’منٹو‘‘ کی ریلیز پر پاپندی عائد کر دی، اور اب پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے الحمرا آرٹس کونسل کی انتظامیہ کو یہ کہتے ہوئے، منٹو فیسٹیول کینسل کرا دیا ہے، کہ جب تک میں وزیر ہوں، تب تک منٹو یا اس جیسے دوسرے فحش نگاروں کے ڈراموں کی نمایش ’الحمرا‘ میں نہیں کرائی جائے گی۔ یہ بحث ایک بار پھر سر اٹھانے لگی ہے، کہ آیا منٹو فحش نگار تھا، یا ایک جراح جو کہ معاشرے کے زخموں کی جراحی کرتا تھا۔ ذہن نشیں رہے، کہ ’منٹو فیسٹیول‘ میں ’اجوکا تھیٹر‘ منٹو کی حیات اور اُن کی کہانیوں پر چار ڈرامے پیش کرنے جا رہا تھا۔
یہ وہی فیاض الحسن چوہان ہیں، جنھوں نے کچھ عرصہ قبل ایک تقریب میں اداکارہ نرگس کا نام لے کر فحش گوئی کی تھی۔ ناقدین ان کے تازہ فرمان کو لے کر پوچھ رہے ہیں، کہ کیا منٹو فحش تھا، یا لاہور اور پنجاب کے تھیٹروں میں جاری اسٹیج شو کے نام پر ہونے والی یاوہ گوئی اور بے ہودہ رقص!؟
بہت بہتر ہوتا فیاض الحسن چوہان ایسی ہدایات جاری کرنے سے پہلے اردو ادب کے کسی قاری ہی سے رائے لے لیتے، کہ منٹو فحش نگار ہے، یا نہیں۔ کچھ نہیں تو ہوم ڈیپارٹمنٹ سے معلومات  منگواتے، کہ سعادت حسن منٹو نامی شخص پر عدالتوں میں جو مقدمات قائم کیے گئے تھے، ان پر دلائل کیا دیے گئے، ان پر فیصلے کیا ہوئے۔ کیا فیاض الحسن چوہان یہ سمجھتے ہیں، کہ  وہ جس نئے پاکستان میں رہ رہے ہیں، وہاں پرانے پاکستان  کے منٹو کے لیے کوئی جگہ نہیں؟ کیا وہ منٹو جسے پرانے پاکستان میں بہت دیر سے قبول کیا گیا تھا، اور 14 اگست 2012 کو منٹو کو بعد از مرگ پرانے پاکستان کے ایوارڈ نشانِ امتیاز سے نوازا گیا تھا، اسے نئے پاکستان میں ایک بار پھر دیوار سے لگا دیا جانا چاہیے؟
عجیب بات ہے منٹو کی کتابیں آج بھی فروخت ہو رہی ہیں؛ پنجاب ہی کے دار الخلافہ لاہور سے بڑی تعداد میں شایع ہوتی ہیں اور فیاض الحسن چوہان اس سے بے خبر ہیں! شاید وہ اس لیے بھی بے خبر ہیں، کہ کتاب سے ان کا کوئی ناتا نہیں ہے؛ ان کے طرز تخاطب سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کہ ان کا بیش تر وقت کس طرح کے تھیٹروں میں گزرتا ہو گا۔ ایسے میں کتاب سے ان کا کیا لینا دینا۔ صد شکر کہ وہ کتاب نہیں پڑھتے، ورنہ ان پبلشرز پر بھی پا بندی عائد کر دیتے، جو منٹو جیسے فحش نویس کو بار ہا شایع کر کر کے امیر ہوئے جاتے ہیں۔
اب جب کہ منٹو پر بنی فلم اور ڈرامے پیش کرنے پر نئے پاکستان میں پابندی لگا دی گئی ہے، تو میں تجویز کرتا ہوں، اس نئے پاکستان کی حکومت منٹو سے نشان امتیاز بھی واپس لے لے؛ سعادت حسن منٹو یہ ایوارڈ لوٹانے سے انکار کریں، تو انھیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ جب نئے پاکستان نے منٹو کو قبول ہی نہیں کرنا، تو منٹو کے پاس نشان امتیاز کیوں رہے۔ مجھے یہ شبہہ ہوتا ہے، اب تک منٹو نشان امتیاز کو بیچ کر آدھی بوتل شراب خرید لایا ہو گا۔ ایسے میں اسے سزا دینا اور بھی آسان ہو جائے گا، کہ اس پر فحش نگاری کا تہمت کارگر نہ ہوئی، تو شراب نوشی کا الزام تو ثابت ہو کے رہے گا۔ منٹو کا تو کوئی ہے بھی نہیں، کہ شراب کی بوتل کو شہد کی بوتل سے بدل دے۔
فلم ’منٹو‘ پر پاپندی اور الحمرا لاہور میں منٹو کے ڈراموں کی نمایش پر پاپندی کے خلاف منٹو میموریل سوسائٹی کی جانب سے نئے پاکستان کی اولین حکومت کے اس فیصلے کے خلاف، آج 14 جنوری کے دن ملک کے بڑے شہروں کراچی، حیدر آباد، لاہور، ملتان اور پشاور کے پریس کلب کے باہر، شام چار بجے احتجاجی مظاہرہ ہو گا۔ پرانے پاکستان میں بھی رسوا، بدمعاش منٹو کے مداح، اس احتجاج میں شریک ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔