بچے ہر گھر کے آنگن کے پھول، فطرتاً معصوم اور پیار کے طلب گار ہوتے ہیں۔ جنسی زیادتی کے واقعات میں نشانہ بننے والے معصوموں کی زندگیوں پر ایسے واقعات عمر بھر کے لیے منفی اثرات چھوڑ جاتے ہیں جو مجموعی طور پر ان کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے۔ بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے واقعات ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان بھی اس سنگین مسئلہ سے دوچار ہے۔ بچوں سے والدین کی معمولی سی عدم توجہی ان واقعات میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ قومی کمیشن برائے اطفال کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 14 سال تک کی عمرکے بچوں کی تعداد کل آبادی کا 35.4 فیصد ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سالانہ 246 ملین یعنی 24 کروڑ 60 لاکھ لڑکے اور لڑکیاں سکول میں ہونے والے جنسی تشدد کا شکار بن چکے ہیں۔
وفاقی محتسب کی قصور میں جنسی زیادتی کے واقعات پر ایک رپورٹ کے مطابق بچوں سے زیادتی کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ متاثرین غریب، کمزور اور پسماندہ خاندانوں سے تعلق رکھتے جبکہ ملزم سیاسی، با اثر اور دولت مند طبقہ سے ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2017 ء میں پاکستان بھر مجموعی طور پر 4117 زیادتی کے واقعات ہوئے ان میں سب سے زیادہ پنجاب سے 1089 واقعات رپورٹ ہوئے۔ صرف قصور میں دس سالوں کے دوران زیادتی کے 272 واقعات رونما ہوئے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گواہوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا اور تمام کیسوں میں صرف دو اعشاریہ چھ فیصد کیسوں میں سزا ہوئی کیونکہ جاگیر داروں اور سیاستدانوں نے اپنے اثر و رسوخ سے ملزمان کی پشت پنائی کرتے ہوئے ان واقعات کو دبانے کی کوشش کی ہے۔
دین سے دوری اخلاقی اقدار کی کمی، منشیات کا استعمال، جسم فروشی اور جنسی مواد باآسانی موبائل اور انٹر نیٹ پر دستیاب ہونا اور غیر اخلاقی فلمیں معصوم بچوں سے جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے گھناؤنے واقعات کی بنیادی وجہ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ قومی کمیشن برائے اطفال کی بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق نظام عدل میں بہت سی خامیوں کی نشاندہی گئی ہے جن میں پولیس تفتیش کے موقع پر رشوت، سفارش اور سیاسی اثر کا استعمال، مجرم کو بچانے کے لیے مظلوم کے خاندان پر دباؤ، غریب لوگوں کو مفت قانونی معاونت کانہ ملنا اورمظلوم کی بحالی کا کوئی باقاعدہ نظام نہ ہونا شامل ہے۔ اس کے علاوہ مقدمات کے اندراج میں حقائق کے پیش نظر دفعات کا اندراج نہ ہونا، میڈیکل میں تاخیر، ڈی این اے رپورٹس کاکئی کئی ماہ تک التواء ہونا اور نا تجربہ کار پولیس افسران کابھی تفتیش میں تاخیر ی حربے اختیار کرنا اہم وجوہات کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب میں ہر چوبیس گھنٹے کے دوران چھ سے سات بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ صرف سات ماہ (جنوری تا جولائی 2018 ) کے دوران پنجاب بھر میں کمسن بچوں سے ریپ، عصمت دری اوربدفعلی کے 1362 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 1357 مقدمات کا اندراج ہواہے۔ اگر ریجن کی سطح پر جائزہ لیا جائے تو لاہورر یجن میں 125، شیخورپورہ ریجن میں 123، گوجرانوالہ ریجن میں 194، راولپنڈی ریجن میں 125، سرگودھا ریجن میں 72، فیصل آباد ریجن میں 150، ساہیوال ریجن میں 71، ملتان ریجن میں 232، ڈیرہ غازی خان ریجن میں 145 اور بہاولپور ریجن میں 125 واقعات ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 505 بچوں کی عمریں تین سے آٹھ سال، 494 بچوں کی عمریں نو سے بارہ جبکہ 363 بچوں کی عمریں 13 سے 17 سال کے درمیا ن تھیں۔ بچوں پر جنسی تشدد کے جرم میں درج ہونیوالے مقدمات میں سے 932 کیسوں کے مکمل اور نامکمل چالان عدالتوں کو بھجوائے گئے ان میں سے 344 مقدمات متعلقہ تھانوں میں زیر تفتیش ہیں اور 81 مقدمات کو مختلف وجوہات پر خارج کیا گیا۔ بہاولنگر کے تین، وہاڑی اور شیخوپور ہ کے ایک ایک واقعہ کی ایف آئی درج نہیں کی گئی۔
بہاول پور میں بچوں کی جیل کے قیدی 13 سالہ کاشف کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہے اسے کو کمسن بچی سے جنسی زیادتی کے مقدمے میں 25 سال کی سزا ہو چکی ہے۔ بہاولنگر کا کاشف مقامی پرائیوٹ سکول کا پانچویں کلاس کا طالب علم اور چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے نے اپنے محلہ کی کمسن بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ کاشف کے خلا ف تھانہ ڈونگہ بونگہ ضلع بہاولنگر میں مقدمہ درج ہو ا تھا اورکیس کی سماعت کے بعد عدالت نے کاشف کو قید کی سزاسنائی۔ کاشف کا کہنا ہے کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ پر غیر اخلافی فلمیں دیکھنے سے ذہن میں انتشار ابھرا۔
بہاولپور ڈویژن (بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان اضلاع ) میں ہر 42 گھنٹے کے دوران ایک کمسن پر جنسی تشدد رپورٹ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سات ماہ ( جنوری سے جولائی 2018 ) کے دوران بہاولپور ڈویژن میں کم عمر بچوں پر جنسی تشدد، ریپ، عصمت دری کے 125 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 79 بچے اور 46 بچیاں شامل ہیں۔ رپورٹ ہونیوالے 125 واقعات میں سے 122 کے مقدمات درج ہوئے۔ متاثرین میں تین سے آٹھ سال کے متاثرہ بچوں کی تعداد 47، نو سے بارہ سال کے بچوں کی تعداد 43 اور تیرہ سے سترہ سال کے بچوں کی تعداد 35 ہے۔
ریجن میں 33 مقدمات زیر تفتیش رہے 82 مقدمات کے مکمل یاغیر مکمل چالان عدالتوں کو بھجوائے گئے، 6 مقدمات میں صلح اور ایک مقدمہ میڈیکل رپورٹ میں الزام غلط ثابت ہونے پر خارج ہوا۔ بہاولپور ڈویژن میں ضلع کی سطح پر رپورٹ ہونیوالے کیسوں کا جائزہ لیا جائے تو سات ماہ کے دوران ضلع بہاولپور میں درج ہونیوالے 42 مقدمات میں 21 زیر تفتیش جبکہ 18 مقدمات کے چالان مکمل کرکے عدالت کو بھجوائے گئے، ایک مقدمہ میں فریقین کے درمیان صلح اور دومقدمات خارج ہوئے۔ ضلع رحیم یار خان میں بھی 42 کیسوں میں سے 27 کے نامکمل چالان یا زیر تفتیش اور 14 مقدمات کے چالان ہوئے جبکہ ایک کیس خار ج ہوا۔ اسی طرح ضلع بہاولنگر میں درج ہونیوالے 41 مقدمات میں سے 5 مقدمات میں فریقین کے مابین صلح ہو ئی جبکہ 24 مقدمات کے چا لان مکمل اور 12 مقدمات کے چالان نامکمل/زیر تفتیش رہے۔
جنسی تشدد و زیادتی جیسے مقدمات درج ہونے کے بعد سیاستدان، جاگیر دار اور دیگر افراد دونوں فریقین میں صلح کے لئے سرگرم ہو جاتے ہیں۔ کئی کیسوں میں تو مدعی کو بھاری رقم کے عوض یا مجبوراً صلح کرکے کیس سے دستبردار ہونا پڑتا ہے نتیجہ میں سفاک درندے سزا سے بچ نکلتے ہیں۔ ضلع رحیم یار خان کے 9 سالہ اشتیاق پر جنسی تشدد کے چار ملزما ن اور 10 سالہ شیر زمان کے مقدمہ میں نامزد دو ملزمان کومدعی، گواہان یا معززین علاقہ کے بیانا ت کے بعد مقدمات کو خارج کر دیا گیا۔
اسی طرح بہاولپور سے تعلق رکھنے والے ایک 7 سالہ متاثرہ بچے (ت) کے والدین کا کہنا ہے کہ آپ تصور ہی نہیں کر سکتے کہ ہمارے لیے وہ لمحہ کس حد تک تکلیف دہ تھا یہ صرف والدین ہی جان سکتے ہیں۔ جب بچے سے زیادتی کے ملزم کو گرفتارکرنے کے بعد کے بعدپہلے تو پولیس نے ملزم کو بھر پور فائدہ پہنچاتے ہوئے اس کو کم عمر قرار دے کر بچوں کی جیل میں بھجوا دیا تھا۔ پولیس کے اس اقدام سے ہمیں خاصی مایوسی ہوئی اسی طرح ایف آئی آر کے اندراج کے چوتھے ہی روز شہرکے معززین اور قریبی عزیزوں نے ملزم کو معاف کرانے کے لئے ہمارے گھر ڈیرے ڈال لیے اور ان میں ایسے افراد بھی شامل ہو گئے جنہیں انکار کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا اور مجبوراً ہمیں عدالت میں جا کر ملزم کی ضمانت کے لئے بیان دینا پڑا۔
جنسی تشدد کا شکار بچوں کے کیسوں میں دس سا ل سے قانونی معاونت فراہم کرنیوالے امتیاز احمد سومرو ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 34 کے تحت بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی روک تھام ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یو این سی آر سی یونایئٹڈ نیشن چائلڈ رائٹس کنونشن 1989 کے تحت پاکستان نے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے اور یہ ایک انٹرنیشنل کنونشن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقدمات کے اندراج کے وقت حقائق کے مطابق دفعات کا اندراج نہیں کیا جاتا اور ان واقعات کا معمول کے مطابق زیر دفعہ 376 یا 377 اندرا ج کیا جاتا ہے حالانکہ 2015 ء کریمنل لاء (ترمیم) کے تحت 377 /Aاور 377 /B اور جنسی ہراساں کرنے کی دیگر دفعات 292 A، B، C کا اضافہ کیا گیا ہے لیکن مقدمات کے اندراج میں یہ دفعات شامل نہیں کی جاتیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک حکم (SCMR 2013 203 ) کا حوالہ دیتے ہوئے ا متیاز سومرہ کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے حکم میں بچوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے ان کیمرہ ٹرائل اور 164 کا بیان خاتون مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ اور متاثرہ بچے کوسرکاری یا غیر سرکاری تنظیم (این جی او) سے کونسلنگ کروا نے کا حکم صادر کیا تھا لیکن اس پرعمل درآمد دیکھنے میں نہیں آیا۔ ایڈوکیٹ امتیاز احمد سومرو کا مزید کہنا تھا کہ ڈی این اے رپورٹ کا کئی کئی ماہ تک نہ آنا بھی تفتیش میں تاخیر کی اہم وجہ ہے۔ اسی طرح ان مقدمات کی تفتیش انسپکٹر یا سب انسپکٹر کو کرنا چاہیے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ نئے بھرتی ہونیوالے یا جونیئر سطح کے پولیس افسر تفتیش کرتے ہیں اور ان کی کم علمی کی وجہ سے زیادہ تر فائدہ ملزمان کوپہنچتا ہے۔
ملزم یہ جرم کیوں کرتا ہے؟
ماہر نفسیات (کلینکل) مس سعدیہ کا کہنا ہے کہ اس جرم کے مرتکب افراد کے حوالے سے ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر ملزمان بچپن میں خود اس قسم کی زیادتی کا شکار ہو چکے ہوتے یا انہوں نے کسی کے ساتھ زیادتی ہوتا دیکھی ہو تو بڑے ہو کر وہی حرکت دوسرے بچو ں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ماہر نفسیات کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوے کیسسززکی ایک بڑی وجہ آسانی سے دستیاب غیر اخلاقی فلمیں بھی ہیں۔ ملزمان بچوں کے ساتھ زیادہ تر پیار کا حربہ ا ختیارکرتے ہیں اگر بچے کو گھر سے توجہ نہ ملے تو وہ باآسانی اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔
والدین اور بچوں میں بات چیت کا عمل اور رابطہ کمزور ہونا بنیادی کوتاہی میں شامل ہوتا ہے۔ والدین بچوں کو جتتا اعتماد د ے کر رابط مضبوط رکھیں گے بچہ اتنا محفوظ رہے گا اور اگر کوئی کوشش کرے گا تو بچہ فوراً والدین کو بتا ئے گا۔ مس سعدیہ کا کہنا ہے کہ بچے کے ساتھ زیادتی کی کوشش یا زیادتی کی صورت میں بچہ انتہائی خوف کا شکار ہو جاتا ہے اور ان میں مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں جن میں بستر گیلا کرنا، دباؤ کا شکار ہونا، سکول میں کار کردگی کا متاثر ہونا، ڈراؤنے خواب، کھانا پینا کم کر دینا، رویوں میں تبدیلی اور تنہائی پسند ہونا شامل ہیں۔ مس سعدیہ کاکہنا ہے کہ والدین بچوں کی کسی حرکت کو ہر گز نظر انداز نہ کریں بلکہ ان پر نظر رکھیں اگر بچہ کسی خاص جگہ یا شخص سے ڈرتا یا گھبراتا ہے تو وجہ جاننے کی کوشش کریں اور بچے کی طرف متوجہ ہوں۔ زیادتی کا شکار بچوں کے غم کا مداونہ ہوتو اس کی شخصیت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری!
عوامی سہولت کے لئے پولیس کلچر میں تبدیلی کے لئے اربوں روپے کے اخراجات اور بلندوبانگ دعوؤں کے باوجود پنجاب میں ڈویژنل یا ضلعی سطح پر فارنزک لیبارٹریاں نہیں بن سکیں۔ پورے پنجاب کے لئے لاہور میں ایک فرانزک سائنس لیبارٹری ہے جہاں صوبہ پنجاب کے سات سو سے زائد تھانوں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت کے دوسرے صوبوں سے بھی کیس بھجوائے جاتے ہیں۔ ڈویژنل سطح پر پنجاب فرانزک لیبارٹری کے دفاتر میں موجود عملہ کی ذمہ داری صرف نمونہ سیل کرکے تفتیشی افسر کے حوالے کر دینا ہے جسے تفتیشی افسر خود لاہور جا کر جمع کرواتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 2013 ء سے اب تک تفتیشی افسران اور مدعی لاہور کے چکر لگا نے پر کروڑوں وپے خرچ کر چکے ہیں۔ یہ شکایت بھی عام ہیں کہ تفتیشی افسران تمام تر سفری اخراجات آج بھی مقدمہ کے مدعیوں اور کیس سے متعلق دیگر افراد سے وصول کر تے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فرانزک سائنس لیبارٹری کا منصوبہ 2013 ء میں مکمل کیا گیا جس کے بعد صوبہ بھر کے ڈویژن سطح پر قائم لیبارٹریوں کو بند کر دیا گیا اور پولیس کو تمام تر نمونے فرانزک سائنس لیبارٹری کو جمع کروانے کو لازم قرار د یتے ہوئے وہاں سے جاری ہونیوالی رپورٹ کو کیس کا حصہ بنائے جانے کے بھی احکامات جاری ہوئے۔
اس فیصلے کا فائدہ لاہور اس سے ملحقہ شہروں کے تھانیداروں اور مدعیوں کو تو ہوا لیکن صوبہ کے دور دراز علاقوں کے تھانوں اور سائلین کے لئے درد سر بن گیا۔ زیر تفتیش مقدمات کی بروقت تکمیل نہ ہونے میں اہم رکاوٹ ڈی این اے رپورٹ کا وقت پر نہ ملنا ہے۔ پولیس کے ایک ذمہ دار افسر کے مطابق جنسی تشدد جیسے سینکڑوں مقدمات میں ملزمان کے گناہ گار یا بے گناہ ثابت کرنے کے لئے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی لاہور سے ڈی این اے رپورٹ کا کئی کئی ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے چند سال قبل آر پی او بہاولپور کی جانب سے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی لاہور کو آگاہ کرتے ہوئے تحریر کیا گیا کہ ڈی این اے رپورٹ کے بروقت نہ ملنے کی وجہ سے 80 فیصد مقدمات کی تفتیش ایک طویل عرصہ تک التواء کا شکار رہتی ہے۔
جنوبی پنجاب سے جاہل ہمارا دماغ کھانے آ جاتے ہو!
پنجاب فرانزاک سائنس لیبارٹری لاہور نمونے جمع کروانے کے لئے جانے والے تفتیشی افسران کو لیبارٹری کے عملہ سے بھی شکایت ہیں۔ ہتک آمیز رویہ پر بہاولپور کے اے ایس آئی نعیم اختر نے واپس آکر تھانہ میں پنجاب فرانزاک سائنس لیبارٹری لاہور کے عملہ کے خلاف رپٹ درج کرائی۔ تھانہ سول لائنز کا اے ایس آئی ایک مقدمہ کے سلسلے میں شواہد کا پارسل پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری لاہو ر لے کر گیا تولیبارٹری کے اہلکار نے اعتراض لگا کر پارسل وصول کرنے سے انکار کر دیا جس پر نعیم اختر نے موقف اختیار کیا کہ پارسل نمونہ کو بہاولپور کے پی ایف ایس اے دفتر ی عملہ نے مکمل کر کے بھجوایا ہے اور میں صرف جمع کروانے آیا ہوں جس پر تکرار شدید ہو گئی اوروہاں پر موجود سینئر اہلکار سے بات کی تو اس نے بات سننا گوارہ نہ کی اور اونچی آواز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ”تم جنوبی پنجاب سے جاہل ہمارے دماغ کھانے آ جاتے ہو“۔
اے ایس آئی نعیم اختر کے مطابق اس نے ڈی جی سے ملنے کے لئے اصرار کیا تو ہتک آمیز رویہ کے ساتھ جواب ملا کہ تم جیسے اے ایس آئی سے ملنے کے لئے ڈی جی کے پاس ٹائم نہیں ہے۔ سیکورٹی سٹاف بلوانے پر وہ عمارت سے باہر آگیا۔ پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری لاہور کے افسران نے رپٹ درج کرنے پر شدید رد عمل ظاہر کیا۔ بہاولپور پولیس کے اعلیٰ افسران نے بھی اپنے افسر کا ساتھ دینے کے بجائے انکوائری کرنا شروع کر دی اور نعیم اختر کو رپٹ درج کرنے کا آج بھی خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ ریجنل انوسٹی گیشن رب نواز تُلہ کا کہنا ہے کہ کیسوں کے بروقت فیصلوں کے لئے پولیس سمیت اس کیس سے منسلک ہر محکمہ اور فرد کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ ایس ایس پی رب نواز تُلہ کا کہنا ہے کہ مقررہ مدت میں چالان عدالت میں پیش کرنا اور اس میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ مثلاً متاثرہ کی بروقت عمر کا تعین، گواہان کے بیانات، میڈیکل رپورٹ، بروقت نمونے لیبارٹری بھجوانا نہایت ضروری ہیں۔ فرانزک سائنس لیبارٹری کے حوالے سے ایس ایس پی انوسٹی گیشن کا کہنا تھا کہ ڈی این اے ناقابل تردید ثبوت ہے۔
فرانزک سائنس لیبارٹری میں 376 اور 377 دفعات کے تحت بھجوائے جانے والے نمونوں کی بروقت رپورٹ کے لئے الگ سیل قائم کیا ہے۔ اگر ڈویژنل سطح پر قائم پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹریوں کے دفاتر کو نمونے وصول کرنے کا اختیار دے دیاجا ئے اور مقررہ مدت میں رپورٹ جاری ہو جائے انصاف کی فراہمی میں تیزی آسکتی ہے اسی طرح نہ صرف تفتیشی افسران کا لاہور سفر کرنے کا گھنٹوں سفر اور غیر ضروری اخراجات اور مدعی کی شکایات کا ازالہ بھی ممکن ہو گا۔
ایس ایس پی انوسٹی گیشن رب نواز تُلہ نے کہا کہ دین سے دوری، والدین کی عدم توجہی، موبائل فون بچوں پر جنسی تشدد کاسبب بن رہی ہے۔ ننھے پھولوں کی حفاظت ہم سب کی پوری ذمہ داری ہے اور پنجاب پولیس اس ذمہ داری نبھانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہے۔ سول سوسائٹی ساتھ دے تو اس طرح کے جرائم کرنیوالے سزا سے ہرگز نہیں بچ سکتے۔
پاکستان میں سال 2018 ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے اغوا، ان پر تشدد اور ریپ سمیت اسی طرح کے دیگر جرائم کے 2300 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق پر ہر چوبیس گھنٹے میں 12 سے زیادہ بچے ان جرائم کا شکار ہوئے۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ”ساحل“ کے اعداد و شمارکے مطابق بچوں پر جنسی تشدد کے مختلف جرائم کے زیادہ تر واقعات کا تعلق پنجاب سے ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یکم جنوری سے جون 2018 تک ملک بھر میں بچوں کے ریپ کے 360 واقعات سامنے آئے ہیں، جبکہ اغوا کے 542 اور کم عمری میں شادی کے 53 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ کم عمر لڑکوں کے ساتھ بد فعلی کے 542 واقعات ہوئے اور بچوں کے لاپتہ ہونے 236 کیسز سامنے آئے ہیں اور 92 بچوں کو گینگ ریپ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنسی تشدد کے بعد 57 بچوں کو قتل کر دیا گیا۔ تنظیم کے مطابق سال 2017 کی نسبت 2018 کے دوران جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ سال 2017 کے پہلے چھ ماہ میں 1764 واقعات کے مقابلے سال 2018 کی پہلی ششماہی میں 2322 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
”ساحل“ کا کہنا کہ بچوں کے خلاف سب سے زیادہ جرائم کا سامنا چھ سے دس سال کی عمر کے بچوں کرنا پڑا۔ اسی طرح زیادہ تر واقعات دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ہوئے ہیں ان میں 26 فیصد واقعات شہری علاقوں میں پیش آئے۔ رپورٹ میں دستیاب معلومات کے مطابق بچوں کے خلاف مختلف قسم کے جرائم کے 56 فیصد لڑکیاں متاثر ہوئیں جبکہ 44 فیصد واقعات میں لڑکے متاثر ہوئے۔ تنظیم نے ملک کے مختلف اخبارات میں بچوں کے خلاف جرائم کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں کی بنیاد پر یہ اعداد و شمار مرتب کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 32 واقعات میں پولیس نے رپورٹ کو درج کرنے سے انکار کر دیا۔
بچوں کا محفوظ مستقبل ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ بڑھتی ہوئی بے راہ روی کو روکنے اور اس طرح کے جرائم کی روک تھام کے لئے جہاں معاشرے کے ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا وہاں پاکستا ن ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) کو بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرکے غیر اخلاقی اور بے راہ روی پھیلانے والی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے یقینی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اخبارات، ٹی وی، ریڈیو کو مستقل بنیادوں پر آگاہی مہم چلانا ہو گی۔ بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کے مقدمات کے فیصلوں کے لئے مدت کا تعین اور ملزمان کو بروقت سزائیں دینے جیسے ترجیحی اقدامات کرنے کے لئے حکومت کو موثر قانون سازی کرنا ہو گیکیونکہ بچے کسی بھی ملک و قوم کے معمار و مستقبل ہوتے ہیں اور معصوم بچوں کا محفوظ مستقبل ہی محفوظ پاکستان کی ضمانت ہے۔