والد صاحب جنوبی پنجاب کے ایک شہر میں دکان کیا کرتے تھے. تھوڑی سی آمدنی تھی۔ بہت پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن سیانے تھے اور بیٹیوں کی تعلیم کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ساری بیٹیوں کو خوب پڑھایا۔ ایک بیٹی ڈاکٹر بن گئی۔ وہ سارے گھر کا فخر تھی۔ گھر میں چونکہ بیٹوں اور بیٹیوں میں کوئی تفریق نہیں برتی جاتی تھی اس لیے بیٹیاں پر اعتماد تھیں اور اپنی حفاظت کر سکتی تھیں۔ ڈاکٹر بیٹی پانچ سال لاہور میں میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں رہی اور مزید تگڑی ہو گئی۔ اپنی ذمے داریوں اور حقوق کو سمجھتی تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ کو محکمہ صحت پنجاب میں نوکری مل گئی اور پوسٹنگ بھی لاہور ہی کے ایک سرکاری ہسپتال میں ہو گئی۔
ڈاکٹر بیٹی کی شادی ایک ڈاکٹر صاحب سے ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس کوئی خاص نوکری نہیں تھی۔ وہ اپنا کلینک کرتے تھے جس سے تھوڑی بہت آمدنی ہو جاتی تھی۔ البتہ ڈاکٹر صاحب کے والد صاحب بہت اچھی جاب پر تھے اور گھر میں ایک معقول انکم آتی تھی۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں گھر بھی اپنا تھا۔ گھر میں کام کاج کرنے کے لیے نوکر چاکر موجود تھے۔ مالی آسودگی بہت واضح طور پر نظر آتی تھی۔
شادی کے بعد ڈاکٹر صاحبہ کی زندگی مزید اچھی ہو گئی۔ نوکری اور گھر دونوں ہی بہت اچھے چل رہے تھے۔ لیکن کوئی ایک آدھ سال اچھا گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ ساس بہو میں چپقلش شروع ہو گئی۔ چپقلش میں ظاہر ہے کہ ہر فریق دوسرے فریق کو نیچا دکھانا چاہتا ہے۔ ساس نے اپنی ڈاکٹر بہو کو نیچا دکھانے کی بہت کوشش کی لیکن انہیں کچھ خاص کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ بہو تگڑی تھی۔ والدین نے بااختیار بنایا تھا، پڑھی لکھی تھی، ملازمت اور اپنی ماہانہ آمدنی بھی۔ ساس کو اندازہ ہوا کہ بہو کی طاقت کا اصلی سورس تو نوکری ہے۔ اگر اس کی نوکری نہ رہی تو پھر میں اس کو اپنے قدموں پر جھکا سکتی ہوں۔ چنانچہ ساس نے مطالبہ کر دیا کہ بہو کو نوکری کی کوئی ضرورت نہیں۔ گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ کیا ضرورت ہے ایک نئی روایت ڈالنے کی۔ گھر پر رہے اور اپنے میاں اور گھر کا خیال رکھے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کچن میں کام کرنے والی نوکرانی کو بھی نوکری سے نکال دیا۔
نوکرانی کو نوکری سے نکالنا تو جیسے کشتیاں جلانے کے برابر تھا۔ ساس نے کہا کہ نوکرانی بھی نہیں اس لیے اب تو کچن میں کام کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ اور کچن چونکہ فل ٹائم کام ہے اس لیے بہو کا نوکری چھوڑنا مزید ضروری ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر بہو نے بھی واضح کر دیا کہ نوکری کرنا میرا حق ہے اور میں اپنے اس حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گی۔ ساس نے آخری ہتھیار استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس گھر میں رہنا ہے تو نوکری چھوڑنا ہو گی۔
ڈاکٹر بہو نے پھر بھی دباؤ میں آ کر کوئی سمجھوتا نہ کیا۔ یہاں تک اسے گھر چھوڑ کر لاہور ہی کے ایک ورکنگ وومن ہاسٹل میں شفٹ ہونا پڑا لیکن وہ اپنے جاب کرنے کے حق سے دستبردار نہیں ہوئی۔ کوئی سال دو سال ہاسٹل میں رہنے کے بعد جب شوہر کے کلینک کی آمدنی بہتر ہو گئی تو “ڈاکٹر جوڑے” نے اپنے لیے ایک گھر لے لیا اور اچھی زندگی کا آغاز دوبارہ ہو گیا۔
اس بات کو دو دہائیاں گزر گئی ہیں۔ میں اس فیملی کو قریب سے جانتا ہوں اور ان کے حالات سے آگاہ رہتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحبہ کو زندگی میں ایک دفعہ بھی نوکری کی بجائے گھر چھوڑنے پر پچھتاوا نہیں ہوا۔ اگر وہ اس وقت ساس کے دباؤ میں آ کر نوکری چھوڑ دیتیں تو ہمشہ پچھتاتیں۔ کیونکہ نوکری چھوڑنے کے بعد جب گھر چھوڑنا پڑتا تو کہیں کی نہ رہتی۔
اس طرح کی کامیابی کی کہانیاں بہت کم ہوتی ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر کیسز میں سسرال کے مطالبے کو پورا کرنے کی خاطر بہت سی خواتیں اپنے جاب کرنے کے بنیادی حق سے دستبردار ہو جاتی ہیں اور نوکری چھوڑ دیتی ہیں کہ شاید ایسے گھر بس جائے۔ لیکن ایسا غیر انسانی سمجھوتا کرنے سے جاب اور آمدنی کا ذریعہ بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور گھر کے حالات بھی ٹھیک نہیں ہوتے۔ کیونکہ سسرالی آپ سے نوکری اس لیے نہیں چھڑوا رہے ہوتے کہ انہیں آپ کی نوکری سے کوئی تکلیف ہوتی ہے۔
انہیں تو اصل میں آپ کی طاقت اور آزادی سے چڑ ہے۔ انہیں اس بات سے چڑ ہے کہ آپ اپنی آمدنی اور گھر سے باہر جا سکنے کی آزادی کی وجہ سے ان کے قابو میں نہیں ہو۔ اس لیے وہ آپ سے نوکری چھوڑنےکا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب آپ نوکری چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں آپ کی آمدنی ختم ہو جاتی ہے اور آپ کمزور ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہوتے بلکہ آپ کے دکھوں میں اصل اضافہ ہونا شروع ہوتا ہے۔ اب آپ ان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اب وہ آپ کو اپنے قابو میں لا چکے ہوتے ہیں اور آپ کے ساتھ غلاموں والا سلوک کرتے ہیں۔
میرے پاس بہت سی مثالیں ایسی ہیں جب بہو نے سسرال کے دباؤ میں آ کر جاب چھوڑی اور پچھتائی۔ آپ یقین کریں آپ کی جاب چھڑانے کی کوئی مثبت وجہ نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی آپ سے پیار کرتا اور آپ کا خیال رکھتا ہے تو وہ آپ کو طاقت ور دیکھنا چاہے گا نہ کہ کمزور۔ اس لیے جونہی کوئی آپ سے یہ مطالبہ کرے کہ آپ نوکری چھوڑ دیں تو آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ یہ آپ کے ساتھ بھلائی نہیں بلکہ دشمنی ہے۔ اگر آپ سے نوکری چھوڑنے کا مطالبہ کیا جا رہا تو اپنے آس پاس کچھ ایسی خواتین سے ضرور مشورہ کر لیں جنہوں نے سسرال کے دباؤ میں آ کر نوکری چھوڑی تھی۔ وہ ساری کی ساری پچھتا رہی ہوں گی اس لیے وہ آپ کو ٹھیک مشورہ دے سکیں گی۔
تمام والدین کو بھی چاہیے کہ اپنی بیٹیوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ لینے کی بجائے دینے والی ہوں۔ تاکہ وہ اپنا خیال رکھ سکیں، اپنے آپ کو تشدد سے بچا سکیں۔ ایک اچھی اور آزاد زندگی گذار سکیں۔ یہ سب انسانوں کا بنیادی حق ہے۔ اپنی بیٹی کو اس حق سے محروم نہ کریں، ورنہ پچھتاوا آپ کی بیٹی کا مقدر بنے گا۔