چلو نیا مسئلہ ایجاد کر لیں

وسعت اللہ خان


صرف میں ہی کیا دسویں درجے کے کسی بھی ہم جماعت کو اچھے خاصے اشعار ازبر ہوتے ہوئے بھی میر صاحب کا یہ شعر اٹک جاتا تھا۔

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو

کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

اردو کے استاد صید رسول ضیا نے پھر یوں سمجھایا۔

’’ مگس شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔وہ باغ میں جا کے پھولوں سے رس چوستی ہے۔کچھ رس موم میں بدل جاتا ہے جس سے چھتہ بنایا جاتا ہے اور کچھ رس شہد میں بدل جاتا ہے۔جب چھتہ توڑا جاتا ہے تو شہد کو موم سے الگ کرلیا جاتا ہے۔ موم سے شمع بنتی ہے اور جب شمع جلتی ہے تو پروانہ لپکتا ہے اور جل جاتا ہے۔لہٰذا مکھی باغ میں نہیں جائے گی تو رس نہیں چوسے گی۔رس نہیں چوسے گی تو چھتہ بھی نہیں بنے گا۔چھتہ نہیں بنے گا تو موم بھی نہیں بنے گی۔موم نہیں بنے گا تو شمع بھی نہیں بنے گی۔شمع نہیں بنے گی تو جلے گی بھی نہیں۔جلے گی نہیں تو پروانہ نہیں لپکے گا اور پروانہ نہیں لپکے گا تو ناحق جلے گا بھی نہیں۔آیا کچھ سمجھ شریف میں ؟؟

اور پھر ایسا آیا سمجھ شریف میں کہ یہ شعر وہ عدسہ ہو گیاجس کو کسی بھی مسئلے پر فٹ کرکے اس کی جڑوں تک جایا جا سکتا ہے۔

مثلاً یورپی طاقتیں اگر لاطینی امریکا ، افریقہ اور ایشیا کو غلام بنانے کے بجائے ان سے تجارتی تعلقات رکھتیں تو یورپ کے ساتھ ساتھ باقی دنیا بھی مساوی پھلتی پھولتی اور پسماندگی و ترقی برابر برابر بٹتی۔وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی لالچ ، توسیعِ سلطنت کی ہوس اور اپنا نظریہ دوسروں کے لیے بھی بہترین فرض کرکے دوسروں کی نفسیات و حالات سمجھے بغیر ٹھونسنے کی اندھا دھند کوششوں نے وہ حالات پیدا کیے جن کے نتیجے میں لالچیوں کے درمیان ہی پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی ۔

پھر اس میں نوآبادیات کو بھی گھسیٹ لیا گیا اور جو فاتح بنا اس نے اس جنگ کی تباہ کاری سے سبق سیکھنے کے بجائے مزید بے انصافیاں کیں اور لڑاؤ، تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پرانی پالیسی کو قلعی کرکے دوبارہ نافذ کردیا۔ مصنوعی جغرافیے تخلیق کیے گئے اور ان میں اصل نمایندہ مقامی قوتوں کو آگے پیچھے دائیں بائیں دھکیل کر جگہ جگہ کٹھ پتلیاں بٹھا دیں۔کچھ اشاروں پر ناچتی رہیں ،کچھ موقع پا کے ہاتھ سے نکل گئیں۔

اگر برطانیہ اور فرانس سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد مشرقِ وسطی کے لوگوں کی قسمت کو شطرنج سمجھنے کے بجائے اپنے فیصلے خود کرنے دیتے تو نہ سعودی عرب وجود میں آتا، نہ ایران کی پہلوی بادشاہت اور نہ اسرائیل۔ جھگڑے ضرور ہوتے رہتے مگر ان کی نوعیت مقامی ہی رہتی۔فلسطین بین الاقوامی ناسور نہ بنتا۔وہابی تحریک کو دیگر مذہبی تحریکیں متوازن رکھتیں اور شیعہ ایران آگے چل کے انقلابی پرابلم نہ ہوتا۔

چلیے سامراجیوں سے پہلی جنگ کے دوران یہ بلنڈر ہو ہی گئے تھے تو پھر دوسری عالمی جنگ کے عواقب سے ہی کوئی سائنسی نتیجہ اخذ کر لیتے۔مگر انھوں نے بین الاقوامی تعلقات کے منفی آداب کو تجزیے کی کسوٹی پے پرکھ کے کوئی مثبت پروڈکٹ ڈھالنے کے بجائے باقی دنیا کو حسبِ سابق اپنی تجرباتی لیبارٹری سمجھا اور ساری تحقیقی توانائی اس پر صرف کردی کہ ببول کی جھاڑی سے سیب کیسے اتارے جاسکتے ہیں۔

انیس سو اناسی میں جب سوویت یونین کسی مغالطے کا شکار ہو کر افغانستان میں کود ہی پڑا تھا تو غیر جنگی طریقوں اور تادیبی کارروائیوں سے پسپا کرنے کے بجائے غیر اعلانیہ جنگ کی راہ اپنائی گئی اور دنیا کے ستر سے زائد ممالک کے ایک لاکھ جنگجوؤں (ساٹھ ہزار غیر پاکستانی ) کو آٹھ برس تک اسلحہ ، تربیت اور مہمان نوازی فراہم کی گئی۔