خاور جمال
ابھی روف کلاسرا صاحب کا لندن کے کلچرل شاکس والا کالم پڑھ رہا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ سب شاکس یاد آ رہے تھے جو کہ مختلف ممالک میں قیام کے دوران مجھے لگے۔ لندن میں کسی روڈ کی زیبرا کراسنگ پر اگر سگنل نہیں ہے تو اطراف میں دو دو پیلی بتیاں لگی ہوتی ہیں۔ آپ کا پاوں رکھنے کی دیر ہوتی ہے، دونوں طرف کا سارا ٹریفک رک جاتا ہے۔ پہلی بار سڑک کراس کرنے لگا تو دائیں بائیں کافی گاڑیاں تھیں اور ٹرک بھی۔ میں نے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے جیسے ہی کراسنگ کے اوپر پیر رکھا تو سب گاڑیوں کو ایسے بریک لگی جیسے سب کو کوئی ضروری کام یاد آ گیا ہو۔ نہ کسی نے ہارن بجایا اور نہ ہی گاڑی چلائی جب تک کہ میں دوسری طرف نہ پہنچ گیا۔ فرط جذبات میں آ کر میں نے ہاتھ ہلا کر سب کا شکریہ ادا کیا اور دو تین نے جواب بھی دیا۔ میں نے دل میں سوچا کہ عجیب لوگ ہیں، وہ بھی یقینا یہی سوچتے ہوں گے۔
مقدس مقامات کی زیارات کا شوق کافی لوگوں کو ہوتا ہے لیکن غیر مقدس مقامات کے تجربات کا شوق کم و بیش سبھی کو ہوتا ہے۔ عظیم برطانیہ کے شہر مانچسٹر پہنچے تو میرے ساتھی عدیل نے کہا ” کےجے بھائی ( کےجے میرے پورے نام کا مخفف ہے) ، آج ڈسکو جانا ہے” اسکے ڈسکو کہنے سے نجانے کیوں مجھے اچانک متھن چکرابورتی سنہری پوشاک میں ملبوس ٹھمکے لگاتے نظروں کے سامنے گھومتے دکھائی دیئے۔ میں نے پوچھا پہلے کبھی گئے ہو تو کہنے لگا نہیں۔ میں نے کہا گیا تو میں بھی نہیں، چلو آج نکل چلیں گے۔ رات میں تیار ہوئے۔ عدیل نے پتہ معلوم کیا اور بریٹانیہ ہوٹل کی پچھلی طرف موجود ایک کلب میں پہنچ گئے۔ وہاں قطار سے کوئی سات آٹھ کلب موجود تھے لیکن ہماری قسمت کہ ہم اس کلب میں جا پہنچے جہاں۔۔۔خیر آگے سنیں۔
بڑے بوڑھوں سے سنا تھا کہ ہلکا نشہ آور مشروب لے کر اس میں بہت سی برف ڈال لینا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا۔ بدقسمتی سے ہم دونوں ہی ام الخبائث سے نا آشنا تھے چنانچہ ریڈ بل کے دو گلاس خریدے اور برف ڈال کر بیٹھ گئے۔ تیز موسیقی اور اسی کے ردھم پر جلتی بجھتی روشنیاں، خوابناک دھواں سب کچھ موجود تھا لیکن صنف نازک کہ جن کے ساتھ ناچنے کو ہم آئے تھے زیادہ تعداد میں نظر نہیں آ رہی تھیں۔ اچانک ایک مناسب خوبصورت نوجوان نچتا ٹپتا ہماری طرف آیا اور پوچھنے لگا ” آر یو گائیز آ کپل “( کیا تم دونوں اکٹھے ہو)۔
عدیل کو تو سمجھ نا آئی لیکن میرا ماتھا ٹھنکا۔ میوزک بہت تیز تھا۔ عدیل نے کہا کیا پوچھ رہا ہے یہ۔ میں نے کہا پوچھ رہا ہے کہ کیا تم میری محبوبہ ہو۔ اور اسکے ساتھ ہی میں نے اس نوجوان کو ہاں میں جواب دے کر چلتا کیا جو کہ نہایت افسردہ اور پرملال نظر آیا۔ عدیل نے اس نوجوان کی والدہ کا رشتہ ایک عربی النسل گھوڑے سے جوڑ کر کہا کہ آپ نے اس کو ہاں کہہ دیا؟ میں نے کہا بیٹے مصیبت کے وقت لوگ گدھے کو باپ بنا لیتے ہیں میں نے تو تم کو صرف محبوب ڈکلئیر کیا ہے۔ اسکے بعد ہم دونوں اپنی جان بلکہ عزت بچا کر نکلے اور سیدھا ہوٹل پہنچ کر دم لیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس طرف زیادہ تر کلب صرف مردانہ ہیں۔
ایک اور دوست کی سن لیں۔ چلیں فرضی نام رکھ لیتے ہیں اس کا آسان سا، گلریز کبیر۔ جی تو ان کو جدید انگریزی سنگیت پر تھرکنے کا اتنا شوق ہے کہ اگر یہ نوکری نہ کر رہے ہوتے تو یقینا ایک کلب کے مالک ہوتے۔ چاہے کتنے بھی تھکے ہوئے ہوں فلائیٹ کے بعد لیکن اگر ہوٹل کے پاس اگر کلب ہے تو ان کی حاضری لازمی ہے۔ سگریٹ نہیں پیتے مگر ایک ڈبی ضرور ہوتی ہے ان کی جیب میں کہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ کوئی گوری حسینہ ان سے ضرور سگریٹ مانگے گی اور پھر خواب و خیالات میں وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے واپسی کی صورت پاسپورٹ ہوتی ہے یا پھر ڈیپورٹ۔ ایک مرتبہ ان کے ساتھ بھی کلب جانا ہوا۔ بخدا پہلی بار انگریزی گانوں پر کسی کو بھنگڑا ڈالتے دیکھا۔ چونکہ میں ان کے ساتھ آیا تھا لہذا شرما شرمی تھوڑا بہت ڈال لیا لیکن آفرین ہے گوروں پر کہ انھوں نے زرا برا نہیں منایا بلکہ خاطرخواہ اپنا حصہ بھی ڈالا اور انجوائے کیا۔
امریکہ پہنچے تو عامر ساتھ تھا۔ بات شروع ہوئی کہ گھومنے کہاں چلیں۔ میں نے کہا نیویارک تو دیکھ لیا ہے کچھ اور تجویز کرو۔ پوچھا اٹلانٹک سٹی دیکھا ہوا ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا بلا ہے۔ پہلے تو مجھے خوب سنائی گئیں کہ تم نے اتنا عظیم جواریوں کا شہر نہیں دیکھا اور کبھی قسمت نہیں آزمائی، یہاں تک کہ مجھے کبھی جوا نہ کھیلنے پر شرمندگی ہونے لگی۔ خیر اگلے ہی دن شہر جواریاں میں جا پہنچے۔ پتہ چلا ایک الگ ہی دنیا ہے۔ ایک الگ نشہ۔ لمحوں میں اتنا پیسہ پانی ہو جاتا ہے کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ سیزر پیلس میں داخل ہوئے۔ واقعی محل ہی ہے۔ سجاوٹ کے کیا کہنے اور طرز تعمیر، بہت اعلی۔ مشہور زمانہ رولیٹ کی میز پر پہنچے۔
میڈیوکر جواریوں کی طرح بیس بیس کر کہ سو ڈالر سے آغاز کیا۔ سچ ہے کہ لالچ بری بلا ہے۔ ہم سب کی طرف سے ایک ساتھی کھیل رہا تھا جس کی قسمت اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ دو سو ڈالر کی جیت ہوئی تو متفقہ فیصلہ کیا کہ بس اب رک جانا چاہیئے مگر وہ نہ مانا۔ یوں ہم اس رقم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے جس سے کھیل شروع کیا گیا تھا۔ خیر وہاں ایسے لوگ بھی دیکھے کہ اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ کوئی آتا، بارہ نمبر پر دوسو ڈالر رکھتا، مشین کا پہیہ گھومتا اور تیرہ نمبر آ جاتا، دو سو ڈالر تیل۔ کبھی آپ بھی چکر لگائیں، آپ کی کمائی لوٹنے کا خاطر خواہ انتظام ہے۔