شعور کیا ہے؟

بات آگے بڑھانے سے پہلے اگر ہم یہ بھی سمجھ لیں کہ شعور کی تعریف دراصل سائنسی بنیادوں پر ہے کیا؟ اب تک شعور پر کی جانے والی تحقیقات کے مطابق اپنے آپ سے باخبر ہونے کو یعنی ہوش و حواس میں ہونے کو شعور میں ہونا کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے کونشسنیس consciousness کہتے ہیں ۔ جبکہ طب و نفسیات میں اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ‘‘شعور دراصل عقل کی وہ کیفیت ہے جس میں حِس، خود آگاہی، دانائی پائی جاتی ہو اور ذاتی اور ماحولی حالتوں میں ایک ربط قائم ہو’’۔
یہاں شعور کا بیان اس لئے ضروری تھا تاکہ ہم یہ واضح کرسکیں کہ انسان کا باطن یعنی اس کی روح دراصل اس کا شعور ہے ۔
کیا روح شعور ہے؟
تحقیقاتی دنیا کو یہ سوال پریشان کرتا رہا ہے کہ وہ کونسا جسم ہے جو مراقبہ کے لمحات میں آزاد ہوتا ہے اور اور وہ زندہ جسم میں کہاں ہوتا ہے؟
مختلف تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں مختلف نظریات سامنے آتے رہے مگر عرصہ ٔ دراز سے ان سوالات کا تسلی بخش جواب تلاش کرتی ہوئی تحقیق میں انقلاب اس وقت برپا ہوا جب کوانٹمفزکس متعارف ہوئی۔
سائنسی تحقیقاتی میدان میں کوانٹم فزکس کو اپنی جگہ بنانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ اب تک جو سائنسدان ایٹم کو ہی انتہائی چھوٹاذرہ سمجھتے آرہے تھے۔ ان کے سامنے اب ایٹم کے اندر کی اس سے بھی زیادہ انتہائی چھوٹی باریک دنیا آموجود ہوئی۔ یہاں ہم کوانٹم فزکس کا مختصر تعارف پیش کررہے ہیں۔
کوانٹم فزکس :
یہ طبیعات کی وہ شاخ ہے جو توانائی اور مادہ کا آپس میں تعلق کا مشاہدہ کرتی ہے ۔کوانٹم فزکس کے مطابق تمام کائنات کی حرکت مادی ہے اور اس میں حرکت توانائیوں کی وجہ سے ہے۔
یہ سائنس کی وہ شاخ ہے جس کے قوانین و نظریات کائنات کی ایٹمی یاجوہری ذرات جیسے بہت چھوٹی اور باریک ترین دنیا کے اسرارورموز کو جاننے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔
مزید آسان الفاظ میں کوانٹم فزکس دراصل ایٹم کے انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرات کے مطالعہ اور تحقیقات کا علم ہے ۔
اب اگر غور کریں تو ابتداء میں بیان کردہ شعور کی تعریفیں بھی ادھوری اور نامکمل محسوس ہوتی ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ابھی تک شعور کی صیح تعریف تک نہ تو فلسفہ پہنچ پایا ہے نہ ہی نفسیات اور نہ ہی طب۔ تاہم کوانٹم فزکس نے دماغ کی ان پیچیدہ گتھیاں سلجھانے میں نئے در وا کئے ہیں ۔یہ ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی دماغ اپنی مادی حیثیت میں مختلف نیورونز سے مل کر بنا ہوا ایک مجموعہ ہے انہیں نیورونز کے فعال ہونے سے حس بنتی ہے اور عقل و شعور پیدا کرتی ہے۔
شعور اور کوانٹم کمپیوٹر
اسٹیوارٹ ہیمرآفStuart Hameroff پروفیسر ایمریطس یونیورسٹی آف ایریزونا میں سینٹر آف کانشسنیش سٹڈی ڈیپارٹمنٹ کے ڈایریکٹر اور انستھسیالوجی اور سائیکلولوجی کے پروفیسر ہیں۔ ان کے پیش کیے جانے والے نظریئے
کوانٹم تھیوری آف کونشیس نیس
کے مطابق ہوش و حواس یعنی کہ شعور دماغ میں موجود کوانٹم کمپیوٹر کے لئے ایک پروگرام کی حیثیت رکھتا ہے جو کہ موت کے بعد بھی کائنات میں قائم رہ سکتا ہے۔ انھوں نے ایک دستاویزی فلم کے ذریعے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ موت کے قریب ترین ہونے کا تجربہ اس وقت ہوتا ہے جب کوانٹم سبسٹانس جو روح کی تشکیل کرتا ہے نروس سسٹم سے نکل کر بالا خر کائنات میں داخل ہوجاتا ہے پروفیسر اسٹیوارٹ اور ان کے ساتھی سائنسدان Roger Penrose کہتے ہیں کہ ہماری روح دماغ کے خلیوں کی گہرائی میں موجود MTsیا Microtubules کا اصل جوہر ہے اور ان کے مابین اختلاط سے وجود میں آتی ہیں۔
مائیکرو ٹوبیولز کیا ہیں ؟
مائیکروٹوبیولزدماغ کے خلومایہ Cytoplasm میں پائے جانے والا لحمی ریشہ Tissueہے جو خلیوں کے تقسیم ہونے یا دو لخت ہونے پر تکلہ نما تار بنانے میں کام آتا ہے ۔یہ انتہائی باریک لچھے دار ساخت ہوتی ہیں جو ہر خلیہ میں موجود ہوتے ہیں ۔یہ ہر خلیہ کی پہلی بنیادی تقسیم کے ذمہدار ہوتے ہیں ۔خلیے کی حرکت اس کی ساخت اس کا کردار یہ تمام معلومات اور ہدایات مائیکروٹوبیولز ہی ان تک پہنچاتے ہیں ۔ چونکہ ان کی اپنی ساخت ایک باریک نلی کی طرح ہوتی ہے اس لئے ان کو مائیکرو ٹوبیول کہا جاتا ہے ۔جبکہ ان کا کیمیائی بناوٹی مادہ ایک پروٹین ہے جو ٹوبیولن کہلاتا ہے۔ڈاکٹر اسٹیوارٹ ہیمر آف کے مطابق الیکٹرون مائیکروسکوپ میں مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی کہ ان مائیکرو ٹوبیولز میں ہمہ وقت ایک ارتعاشی عمل یا ایک مسلسل حرکت ہوتی رہتی ہے۔ اس کی رفتار کم سے کم ایک سیکنڈ میں 40 بار نوٹ کی گئی ہے ۔ مائیکرو ٹو بیولز کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیند کے دوران مختلف درجات پر پیدا ہونے والی برین ویزیا الفا، بیٹا تھیٹا لہریں اور ان کی رفتار میں کمی زیادتی بھی دماغ کے انہی خلیات میں پائے جانے والے مائیکرو ٹوبیولزکی بدولت ہوتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ قدرت کا یہ اعلی درجے کا اعصابی نظام اور اس کی فعالیت کا انحصار خالصتا انہیں مائیکرو ٹو بیولز کی فعالیت اور ان سے جاری کردہ ہدایات پر ہے۔مائیکرو ٹو بیولز کی اس سرگرمی کو جس کے تحت یہ ہدایات جاری کرتے ہیں کوانٹم انفارمیشن یا شعور کہہ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ہیمرآف اور ان کے ساتھ پین روز نے سائنسی چینل پر ورم ہول ڈاکومنٹری کے ذریعے حیات کا مائیکرو ٹوبیولز سے گہرے تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ موت کی صورت میں جیسے ہی دل رُکتا ہے خون کا بہاؤ بھی بند ہو جاتا ہے ۔ اس دوران مائیکرو ٹیوبیولز اپنی حالت بدل لیتے ہیں ۔ اس کے لئے وہ ایک مثال ایسے مریضوں کی بھی دیتے ہیں جنہیں سرجری کے لئے استھیزیا کے انجکشن لگا کر بے ہوش کیا جاتا ہے۔ جس کے بعد مریض کا رابطہ اپنی حسیات سے عارضی طور پر منقطع ہوجاتاہے وہ درد یا تکلیف محسوس نہیں کر پاتا اور نہ ہی ہوش و حواس میں ہوتا ہے۔ پروفیسر ہیمر آف کا کہنا ہے کہ اس صورت میں جب انستھیسیا دینے والے چند مریضوں کے سیلزکا جائزہ لیا گیا تو ہم نے ان کے دماغی خلیوں میں پائے جانے والے مائیکرو ٹو بیول کی حرکت اور حالت میں واضح تبدیلی نوٹ کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قریب المرگ زندگی کے تجربے سے یہ نتیجہ اخذ ہوا ہے کہ مائیکرو ٹیوبیولز اپنی کوانٹم حالت کو چھوڑ دیتے ہیں یا کہ یہ انفارمیشن جسم سے نکل کر کائنات میں واپس چلی جاتی ہے۔اگر مریض دوبارہ ہوش میں آجاتا ہے تو یہ کوانٹم انفارمیشن دوبارہ مائیکرو ٹیوبیولز میں واپس آجاتی ہے اور مریض کہتا ہے کہ اس نے تو موت کا منظر دیکھ لیا ہے ۔ اگر یہ بحال نہیں ہوتا اور موت واقع ہو جاتی ہے تو اس انفارمیشن یعنی شعور سے رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو جاتا ہے ۔لیکن اس صورت میں یہ عین ممکن ہے کوانٹم انفارمیشن جسم کے باہر شاید لا متناہی مدت تک کے لیے موجود رہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ تحقیقات سے واضح ہوا ہے کہ مائیکرو ٹیوبیولز میں موجود یہ کوانٹم انفارمیشن تبا ہ نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ تباہ ہو سکتی ہے۔ یہ محض تقسیم ہوتی ہے اورجسم سے رابطہ منقطع ہونے کی صورت میں ایک خاص وقت پر بالاخر کائنات میں پرواز کرجاتی ہے۔
اس تھیوری کو آرچیسٹر یڈڈ آبجیکٹیو ریڈکشن کا Orchestrated Objective Reduction نام دیا گیا ہے۔ اس تحقیق میں مصروف دونوں سائنسدانوں نے بیان کیا ہے کہ ہماری روحیں دماغ کے نیورونز کے باہمی اختلاط سے مزین ہیں ۔جو شاید کائنات کے وجود میں آنے کے وقت بھی موجود تھیں۔ یہ حقیقت میں کائنات کے انتہائی اعلی فیبرک سے تشکیل پائی ہیں ۔
ڈاکٹر ہیمر آف کے وضاحت کردہ اس اعلی فیبرک کو ہم تانا بانا بھی کہہ سکتے ہیں ۔
اعلی فیبرک یا تانابانا
یہاں آپ یہ سوال بھی کرسکتے ہیں کہ
اعلی فیبرک کیا ہے؟ یا اس تانا بانا سے کیا مراد ہے ؟۔
دوسرا سوال یہ کہ ان مائیکرو ٹوبیولز کو اطلاع کہاں سے ملتی ہیں ؟
اگر زندگی سے تعلق رکھنے والا ہر خلیہ ان مائیکرو ٹوبیولز کی ہدایت پر عمل پیرا ہے تو پھر یہ مائیکرو ٹوبیول کس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں؟
سائنسدان اس کا جواب ڈھونڈنے میں مصروف ہیں سائنسی تحقیقات کو فی الحال خاصا وقت اور خاصے مراحل بھی درکار ہیں ۔بہر حال اگر اس لمحہ ذرا دیر ٹہر کر ہم اپنے اسلاف اور روشن ضمیر بزرگوں کی کتابوں اور ان کی تعلیما ت پر غور فکر کریں تو اس کا جواب با آسانی پا سکیں گے ۔
لوح و قلم اورنظریہ رنگ و نور میں قلندر بابا اولیاء ؒ اور حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی اعلی فیبرک یاتانے بانے کی وضاحت اس طرح فرماتے ہیں کہ پوراکائناتی ڈھانچہ اور سارا ماورائی نظام لہروں کے تانے بانے پر قائم ہے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے اور آئن سٹائن کی نظریہ اضافیت کے بعد ثابت ہوچکا ہے کہ ہر شئے دو رخوں پر قائم ہے۔ اسی طرح نوع ِآدم بھی روشنی اور عناصر کا مجموعہ ہے۔
آپ وضاحت فرماتے ہیں کہ کائنات میں موجود کوئی بھی وجود دو رخوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
کتاب لوح و قلم میں حضور قلندر بابا اولیا روشنی کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ روشنی خلا ء ہے ۔اس خلا کا ایک وجود ہے ۔ خلا کا وجود ہے تو اس میں حرکت بھی ہے یعنی خلاء میں مسلسل ایک ارتعاشی عمل جاری ہے ۔جس کا سفر ازل سے ابد تک طرف ہے۔اب خلا کی اکہری حرکت کومفرد لہر یا نسمہ مفرد کہا جاتا ہے۔در حقیقت یہی مفرد اکہری لہر ہی ہے جو تمام حیات کی بنیاد یا بساط یا بیسBase ہے۔
بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں کہ کائنات میں موجود ہر شئے کی زندگی کی بنیاد اسی روشنی کی اکہری مفرد لہر کی حرکت پر قائم ہے ۔ جب روشنی کی اس اکہری مفرد لہر میں افقی سمت میں دوسری مرکب لہر کا اضافہ ہوتا ہے تو تانے بانے کی صورت میں ایک جال یا گراف کی تشکیل ہوتی ہے۔یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح دھاگوں کی انتہائی باریک ڈ وریں عمودی اور افقی سمت میں ایک دوسرے میں پیوست ہوکر ایک کپڑے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں ۔یہ دھاگوں کی ڈوریں بظاہرایک دوسرے میں پیوست نظر آتی ہیں مگر ایک دوسرے سے الگ بھی ہوتی ہیں ۔اسی طرح روشنی کی دو لہریں مل کر تانابانا بُنتی ہیں جن کے درمیان موجود کشش کا قانون انہیں ایک دوسرے میں توازن کے ساتھ پیوست یا جوڑے رکھتا ہے۔ اس تانے بانے کو قلندر بابا اولیاء نے اپنی کتاب لوح و قلم میں نسمہ کا نام دیا ہے۔
یہ تانابانا ہی ہے جوزمان و مکان کہلاتا ہے ۔شعور لاشعور کہلاتا ہے ۔جس میں حیات کے خدوخال تشکیل پاتے ہیں ۔مخلوق کے نقش و نگار بنتے ہیں۔آپ مزید وضاحت فرماتے ہیں کہ ہر تخلیق کے لئے اس تانے بانے کی تشکیل معین مقداروں پر ہوتی ہے۔یہی معین مقداریں مختلف نوعوں جمادات،حیوانات ،نباتات، بشمول آدمی کی صورت میں ہمیں نظر آتی ہے۔یعنی اس تانے بانے میں مرکب لہر پر نقش و نگار بنتے ہیں اور روشنی کی مفرد لہر زندگی کے ان نقش و نگار کو فیڈکرتیہے۔
اس جملے کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ جس رخ کا دنیا میں ظہور ہوا وہ مادیت یا مکانیت ہے اور جو رخ بظاہر نظر نہیں آتا اس میں ظاہر ہونے والے ان نقش ونگار کی اطلاع یا انفارمیشن موجودہے۔ یعنی کہ باطن زمانیت یا روشنی ہے جو زندگی کو فیڈ کرتی ہے ۔
قلندر بابا اولیاءؒ کے بتائے ہوئے ان کلیات کے مطابق اگر کسی بھی وجہ سے روشنی کی اس اکہری یا مفرد لہر کا مرکب لہر پر غلبہ ہوجائے تو انسان کو OBE بیرون ِجسم تجربات کا مشاہدہ ہو سکتاہے۔ اس کی ایک انتہائی سادہ اور جامع مثال نیند کے دوران خواب کی حالت ہے ۔ہم گہری نیند میں ہوتے ہوئے بھی خواب کے دوران بیداری کے حواس کی طرح کھاتے پیتے بھی ہیں ،چلتے پھرتے بھی ہیں ۔اگر خواب میں ڈر جائیں تو بیدار ہونے پر ہم اس ڈر کو محسوس کرتے ہیں ۔کوئی چوٹ لگے تو اس کے درد کو محسوس کرتے ہیں جبکہ بحیثیتِ مادی جسم ہم بستر پر تقریباً بے جان حالت میں پڑے ہوتے ہیں ۔
ڈاکٹر ہیمر آف اور پین روز کی تھیوری آف کونشسنیش اور مائیکرو ٹو بیولز کے کردار پر بحث سے کم سے کم یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب سائنسدان شعور کے ساتھ لاشعور اور زمان و مکان کے اس تانے بانے کوصحیح رخ پر سمجھ پائیں گے اور جلد یا بدیر سائنسی شواہد کے پیاسوں کو اس کے شواہد سائنسی بنیادوں پر پیش کریں گیں۔

اناالحق