کیا صرف خوبصورت عورت ہی مردوں کے لئے قابل قبول ہوتی ہے؟

 
نئے سال کی آمد آمد ہے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی دنیا میں ہزاروں لوگ یقیناً وزن کم کر کے اچھا نظرآنے کا عظم کررہے ہیں۔ جم والے ممبر شپ بیچنے کے لئے ریڈیو، ٹیلی وژن اور انڑنیٹ پر چلا چلا کر بتا رہے ہیں کہ نئے سال میں آپ کا اچھا دکھائی دینا کیوں ضروری ہے۔ وہ تمام افراد جو 2018 میں اپنا وزن کسی بھی طرح سے کم کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے یا کم از کم کمپیوٹر ٹیکنیک کے ذریعے دکھانے میں کامیاب تھے، اشتہارات میں اپنے پرانے ایکسٹرا لارج کپڑوں کے ساتھ فخر سے سینہ تانے کھڑے کچھ نہ کچھ بیچتے نظر آتے ہیں۔
صحت مند رہنے کے لیے وزن کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے مگربڑھے ہوئے وزن کے ساتھ اچھا نہ لگنے والے نظریے کا براہ راست تعلق ہماری نفسیات سے ہے۔ اچھا لگنے کی اس جدوجہد میں عورتیں یقیناً مردوں سے آگے ہیں کیونکہ بچپن سے ہی پوری دنیا ملکر ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ تمھارے اچھا محسوس کرنے کے لئے اچھا دکھائی دینا ضروری ہے۔ شادی شدہ عورتوں کے شوہر اگر بے وفائی کے مرتکب ہوں یا دوسری عورتوں میں دلچسپی لیں تو پورا معاشرہ مردوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے بیویوں کو یہ کہتا نظر آتا ہے کہ تم اپنے آپ کو بنا سنوار کے نہیں رکھتیں یا وزن کنڑول میں نہیں رکھا تو یہ تو ہونا ہی تھا۔
شادی کے وقت لڑکیوں کے انتخاب میں بھی ظاہری حُسن کی اہمیت باطنی حُسن کے مقابلے میں برتری لے جاتی ہے۔ جہاں لڑکوں کے لئے اُن کی تعلیم، عہدے یا کاروبار کی اہمیت ہوتی ہے وہیں لڑکیوں کے لئے یہ تعلیم اور عہدہ شادی میں روکاوٹ بن جاتے ہے۔ یا آگرمعمولی شکل و صورت والی ڈاکٹر بہو سوسائٹی میں اپنا اسٹیٹس بڑھانے کے لئے پسند کر بھی لی جائے تو شادی کے بعد اُسکی اسی ڈاکٹری عہدے سے خود مختاری کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے ڈاکٹری چھوڑنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے اچھا محسوس کرنے کے لئے اچھا لگنے والی معاشرتی قدر مشرق اور مغرب دونوں ہی میں یکساں راج اور مقبول ہے۔ حالانکہ مغرب میں عورت معاشی طور سے آزاد ہے مگر اُسے اچھا محسوس کرنے کے لئے اب بھی کسی حد تک مرد کی منظوری کی ضرورت ہے۔ وہ اچھا لگنے اور اچھا محسوس کرنے کے لئے غیر آرام دہ لباس، اونچی ایڑی کے جوتے، بڑھے ہوئے ناخن بمعہ پالش، میک آپ، بالوں کی تراش خراش اور رنگوں پر بہت زیادہ وقت اور پیسہ صرف کرتی نظر آتی ہے۔
مردوں سے میل جول پر کوئی پابندی نہ ہونے اور رشتوں میں ذمہ داری وحقوق دونوں میں مساوی حصے دارہونے کے باوجودعورت اس بات کی اُمید لگائے رکھتی ہے کہ شادی کا پرپوزل مرد کی طرف سے آئے اور ڈیٹ پر ریسٹورانٹ کا بل مرد ادا کرے۔ کچھ عرصہ پہلے میری ایک سفید فام کنیڈین دوست نے مجھ سے شادی کے بعد شوہر کا فیملی نام نہ لگانے پر اچھی خاصی بحث کی اور مجھے بتانے کی کوشش کی کہ شادی کے بعد آپ ایک فیملی کا حصہ بن جاتی ہیں لہذا فیملی یونیٹی کو ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عورت اپنا نام بدل لے۔
فیملی نام نہ بدلنے کے پیچھے میرا نقطہ نظریہ تھا کہ ویسے تو میں عورت کے نام کے ساتھ اُسکے والد اور شوہر دونوں کے نام لگانے کے خلاف ہوں۔ اس لیے کہ خاندان کے مردوں کا نام ساتھ لگانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اُن کی جائیداد ہیں اور شادی کے بعد ہمارے جُملہ حقوق ہمارے والد سے شوہر کے نام منتقل کر دیے گئے ہیں۔ کیونکہ پیدائش کے وقت اپنا نام منتخب کرنا ناممکن تھا لہذا والد کا نام میرے نام کے ساتھ لگا مگراب میں اس روایت کو برقرار رکھ کر شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ نہیں کیوں لگاؤں۔
جب مرد کوشادی کے بعد اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے اپنی پچھلی شناخت مٹانے کی ضرورت نہیں تو پھر عورت کو کیوں ہو۔ ویسے بھی فیملی یونیٹی کے نام سے مجھے نیشنل ازم کی بو آتی ہے۔ جہاں فرد کی انفرادی کوئی اہمیت یا اختیارات نہ ہوں بلکہ سب کچھ مشترکہ ہو۔ جیسا کہ نیشنل ازم کے شکار ممالک میں ملٹی کلچرل ازم کو دبا کر رکھا جاتا ہے اور صرف ایک زبان اور ایک ہی کلچر کا دور دورا ہوتا ہے بالکل ایسی طرح خاندان کے تمام افراد کے فیملی نیم ایک نام کے زیر نگرانی ہوتے ہیں اور خاندان کے افراد کوکچھ خاص پیشے اوردلچسپیاں اختیار کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ اس طرح انفرادیت کی خوبصورتی کو کچل دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف مشرق میں عورتوں کی آزادی اور خود مختاری کا آغاز تو ہو چکا ہے مگر ابھی بھی اُن کی سوچ خود کو مردوں کے بالکل برابر سمجھنے تک نہیں پہنچی ہے۔ اُن کے لئے مردوں کی رضامندی ذاتی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر بہت اھم ہے۔ پاکستان میں متوسط طبقے کی خواتین بھی اب گھر پر سینے اور پرونے کے کاموں میں مشغول نظر آنے کے بجائے درزیوں اور نیم برانڈ بوتیکس کے چکر لگاتی نہیں تھکتیں۔
وہ تو بھلا ہو لٹیروں کا کہ جن کے ڈر سے سونے کے زیورات کی خریدو فروخت میں تھوڑی کمی آئی ہے مگر اُس کمی کو نیم برانڈ جوتوں، زنانہ پرس اور کپڑوں نے پورا کردیا ہے۔ جن کو بُرا وقت پڑنے پر سونے کی طرح بیچا بھی نہیں جاسکتا۔ کینیڈین سوسائٹی کے حالات بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہیں، ہراسٹور میں عورتوں کے جوتوں، کپڑوں اور دیگر اشیاء کا شعبہ مردوں اور بچوں کے مقابلے میں دوگنا ہوتا ہے اور پاکستانی کنیڈین خواتین تو اس دلدل میں بری طرح سے پھنسی ہوئی ہیں۔
گلی گلی پاکستانی عورتیں گھروں سے کپڑے، جوتے اور دیگر آرائشی سامان خرید و فروخت کررہی ہیں، خوبصورت نظر آنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے اورایک دوسرے سے جلن، حسد اور مقابلہ بازی عروج پر ہے مگر پھر بھی کسی طرح مستقل اور مسلسل خوبصورت محسوس نہیں کرپا رہی ہیں۔ ہر سرمایہ دارانہ معاشرہ ہمیں بچپن سے بتاتا ہے کہ مرد صرف اُس وقت عورتوں کے منظورنظر ہوں گے جب وہ اپنے گھر کی عورتوں کی تمام خواہشات اور ضروریات کوکسی بھی قیمت پر پورا کریں گے اور عورتوں کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ اپنے مردوں کے لئے صرف اُس وقت قابل قبول ہوں گی جب وہ اپنے آپ کی آرائش و زیبائش کا بھرپور خیال رکھیں گی۔
لہذا یہ گھن چکر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ مرد عورتوں کی خوشنودی کے لئے اپنے ذریعہ معاش کے غلام اورعورتیں مردوں کی نورنظر بنے کے لئے اُن اشیاء کی غلام جو اُنہیں خوبصورت بنے میں مدد کرتی ہیں۔ آج پوری دینا میں سرمایہ داری نظام عورتوں کو مردوں کی منظوری کے لئے ظاہری خوبصورتی کے جال میں پھنسائے ہوئے ہے اور مردوں کو عورتوں کی منظوری کے لئے سخت مزدوری پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ اچھا محسوس کرنے کے لئے مردوں اورعورتوں دونوں کو خود اعتمادی کی ضرورت ہوتی ہے اور خود اعتمادی کا براہ راست تعلق ہوتا ہے ہمارے صحت مند ہونے، خوش و مطمئن محسوس کرنے سے ہے نہ کہ مصنوعی اشیاء کے استمال سے۔
اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ وقت گزارنا، کام کے ساتھ کچھ وقت رضاکارانہ کام کرنے میں صرف کرنا اورباقی وقت اپنے مشاغل کو دینا بہت ضروری ہے۔ اپنی موجودہ زندگی سے مطمئن اور شکر گزار رہنا مگرساتھ ساتھ نئے ہُنر سیکھ کر اپنے آپ کو چیلنج کرنا۔ اپنی کامیابیوں پر فخر کرنا اور ناکامیوں کو سبق لینے کی حد تک یاد رکھنا ہی وہ راستہ جو ہمیں مسلسل اور مستقل اچھا محسوس کرا سکتا ہے۔ اچھا محسوس کرنے اور اچھا دکھائی دینے میں کیا فرق ہے یہ بات سمجھنے میں مجھے بھی بہت وقت لگ گیا اورزندگی کے بہت سال ضائع ہوگئے، مگر اب ہوش آچکا ہے تو کوشش کروں گی کہ تمام غلط تعلیمات کو بھول کر نئے سال میں انسانیت کی بنیاد یعنی بیک ٹو بیسکس ہو جاؤں۔