محمد حنیف
غلطی سے ٹی وی لگا لیا، 15 منٹ میں کوئی ایک درجن چینل بدلے اور پتہ چل گیا کہ کائنات میں جو بھی خرابیاں ہیں اس کے ذمہ دار عثمان بزدار ہیں جو پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے سے پہلے وہ کیا تھے کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ انھیں عمران خان نے وزیراعلیٰ کیوں بنایا یہ بات اور بھی کم لوگ جانتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ بننا جہانگیر ترین نے تھا وہ نااہل ہوئے تو انھوں نے اپنا بندہ بنوا لیا۔ کوئی کہتا ہے کہ بس گھڑے میں سے پرچی نکالی گئی ہے۔
زیادہ سیانے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان نے شہباز شریف کو پیغام دینا ہے کہ تو بڑا خادم اعلیٰ بنا پھرتا تھا، اب جو میرا خادم ہو گا اس کا حکم چلے گا۔ کوئی کہتا ہے کہ اسلام آباد کو اقتدار کا راستہ لاہور سے ہو کر جاتا ہے اس لیے ایسا بندہ چاہیے جس کا کوئی گروپ نہ ہو، جو تشکّر کے بوجھ تلے دبا رہے اور ہر صبح آنکھیں ملتا ہوا اٹھے اور اپنے آپ کو یاد دلائے کہ میں وزیراعلیٰ ہوں۔
ابھی چند دن قبل ہمارے صحافی بھائی بزدار صاحب کی پروٹوکول کی گاڑیاں گن رہے تھے۔ بار بار کوئی کہتا تھا یہ ہے کوئی سادگی، یہ ہے تبدیلی؟ پھر کہیں سے کوئی کلپ ہاتھ آتا گیا جس میں پولیس کے آئی جی صاحب کوئی ٹرافی وصول کرنے کے بعد ان کی طرف مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں اور وہ دوسری طرف چل پڑتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار بھی ہر دوسرے دن یاد دلاتے ہیں کہ عمران خان کی ٹیم کے کمزور ترین رکن ہیں انھیں انتظامی امور کا کوئی تجربہ نہیں۔ فن خطابت سے ناواقف ہیں، صحافیوں کے ساتھ بات کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا۔ انگریزی چھوڑیں ان کی تو اردو بھی مشکوک ہے۔ کسی نے ابھی تک یہ نہیں کہا کہ بزدار صاحب کو چھری کانٹے سے کھانا کھانا نہیں آتا، یہ جب باہر سے آنے والے حکمرانوں کے ساتھ طعام کریں گے تو پاکستان کی بےعزتی ہو گی۔
مجھے ان سب اعتراضات سے تعصب کی بو آتی ہے۔ وہ تعصب جو شہریوں میں دیہات سے آنے والوں کے لیے پایا جاتا ہے۔ یہ وہی تعصب ہے جو انگریزی بولنے والے اردو بولنے والوں سے روا رکھتے ہیں۔ وہی احساسِ برتری ہے جو اردو بولنے والے پنجابی بولنے والوں کے سامنے محسوس کرتے ہیں اور اسی طرح کی رعونت جو پنجابی بولنے والی سرائیکیوں کے ساتھ برتتے ہیں۔
تعصبات کی سماجی سیڑھی میں بزدار صاحب سب سے نیچے ہیں۔ پسماندہ علاقے کے بھی ہیں اور سرائیکی بھی۔ عمران خان کے مخالفین اور مجھے لگتا ہے کہ ان کے کئی حامی بھی اکثر یہ سوچتے پائے جاتے ہیں کہ عمران خان کو آخر عثمان بزدار میں ایسا کیا نظر آتا ہے۔ عمران خان جواب دے چکے ہیں کہ وسیم اکرم، لیکن یار لوگوں کو یقین ہی نہیں آتا۔
اوپر سے نئے پاکستان میں پرانا صحافیوں کا وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ چاروں طرف خبروں کے لیے نظر دوڑاتے ہیں جو سب سے بیچارہ ٹارگٹ دکھائی دیتا ہے اس پر چاند ماری شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں کراچی سے لے کر خیبر تک ہر دوسرے دن پشتون اپنے لاپتہ پیاروں کے لیے، اپنے معذور بچوں کے لیے انصاف مانگتے ہیں۔ ان کی باتیں آپ کو کسی چینل پر نظر نہیں آئیں گی۔
سینکڑوں افراد کا مبینہ قتل عمرہ کرنے کی اجازت مانگتا پھرتا ہے۔ کراچی شہر بلکہ پاکستان کی سب سے بلند عمارت میں آگ لگ جاتی ہے، کوئی خبر نہیں چلتی کیونکہ عمارت کا مالک اشتہار دیتا ہے اور یہ ہمارے اردگرد کی خبریں ہیں۔ قومی سلامتی کے ذمہ داروں کا تو ذکر ہی کیا کیونکہ وہاں تو بڑوں کے بھی پر جلتے ہیں۔
قصور خود پی ٹی آئی والوں کا بھی ہے۔ انھوں نے امیدیں ایسی بنا لی ہیں کہ عمران خان کا ساتھی اسد عمر کے لیول کا ہو۔ یعنی جرنیل کھ گھر پیدا ہو۔ اینگرو کا بڑا افسر رہا ہو۔ اب ہر صبح اٹھ کر سٹرنگز کے گانے سن کر جوش میں آتا ہو، پھر پاؤلو کوہیلو کے قول ٹویٹ کرتا ہو اور پھر تھک ہار کر دال والے ہوٹل پر دیسی گھی کے تڑکے والی دال کھاتے ہوئے ویڈیو بنا کر شام تک وائرل ہو کر سو جاتا ہو۔
فی الحال دال والی ویڈیو دیکھو اور عثمان بزدار کی جان بخشو۔