’آپ ہیرو ہیں!‘
’اس نے شیر کی طرح ڈٹ کر بیماری کا مقابلہ کیا۔‘
’ہمت نہ ہارو، فائیٹر بنو!‘
کینسر سے متاثرہ افراد کے لیے اکثر لوگ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ یہ اس لیے کرتے ہیں تا کہ کینسر سے دوچار مریض کے دکھ درد میں کمی لا سکیں۔
لیکن برطانوی ادارے میک میلن کینسر سپورٹ کی جانب سے کروائے گئے ایک سروے کے مطابق سرطان کے مریضوں کے لیے ایسے الفاظ حوصلہ افزا ہونے کے بجائے غیر مناسب ہو سکتے ہیں۔
میک میلن کینسر سپورٹ نے برطانیہ میں 2000 ایسے لوگوں سے گفتگو کی جن کو کینسر ہے یا تھا۔ نتائج کے مطابق کینسر کی تشخیص پر ’جنگ‘ یا ’لڑائی‘ جیسے الفاظ استعمال کرنا یا پھر یہ کہنا کہ وہ یہ جنگ یا لڑائی ہار گئے، پسند نہیں کیا جاتا۔ اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کینسر سے متعلق زبان پر لوگوں کی کتنی مختلف رائے ہو سکتی ہے۔
47 سالہ مِینڈی مہونی کو لاعلاج چھاتی کا کینسر ہے۔ لندن میں رہنے والی مِنڈی کے کینسر کو 2011 میں پہلی مرتبہ تشخیص کیا گیا جس کے بعد یہ بیماری پانچ دفعہ واپس آ چکی ہے۔ مِینڈی کہتی ہیں کہ ‘سرطان کے شکار افراد کے لیے بہادر اور جنگجو جیسے الفاظ کا استعمال ان پر بہت زیادہ دباؤ کا سبب بن سکتا ہے۔’
مِنڈی کو کینسر سے مر جانے والے افراد کے لیے “جنگ ہارنا” جیسے الفاظ استعمال کرنے پر بھی اعتراض ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کی موجودہ حالت کے لیے حقیقت سے نزدیک زبان کا استعمال کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خود کو بہادر محسوس نہیں کرتیں، وہ بس اپنی بقیہ زندگی کو اچھی طرح سے گزار رہی ہیں۔
31 سالہ پاور لفٹر کریگ ٹولی میں 2016 میں تھایرائڈ کے کینسر کی تشخیص ہوئی، لیکن اِب وہ صحت یاب ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک کینسر کے مریضوں کے لیے ایسے مثبت الفاظ کا استعمال ضروری ہے۔
کریگ کا کہنا ہے کہ ‘جنگ، لڑائی اور جدوجہد جیسے الفاظ کے معنی ہر شخص کے لئے مختلف ہو سکتے ہیں۔ ذاتی طور پر یہ الفاظ میرے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوئے ہیں، جن کی بدولت مجھے کینسر جیسے مرض سے لڑنے میں خاصی مدد ملی ہے۔’
میک ملن کینسر سپورٹ کی چیف نرسنگ آفیسر کیرن رابرٹس کہتی ہیں کہ اس سروے کے نتائج سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسے عام الفاظ کے معنی سرطان کے مریضوں کے لیے کس قدر مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘کینسر سے متاثرہ افراد جذباتی اور صدمے کا شکار ہو جاتے ہیں، اور جب ان کے اپنے خاندان اور دوست ان کی اس حالت کو سمجھ نہیں پاتے تو ان کی زندگی مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ ‘کیرن کہتی ہیں کہ ‘اس سروے سے ہم چاہتے ہیں کہ کینسر کے مریض ہمیں بتائیں کہ وہ کون سے الفاظ سننا پسند کرتے ہیں۔ ایسے الفاظ جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہو۔’
مِینڈی کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ کینسر سے متاثرہ شخص سے بات کرنے کے لیے ایک نئی کتاب تشکیل دی جائے۔ ضروری نہیں کہ لوگوں کو ہمیشہ پتہ ہو کہ کیا کہنا ہے۔’وہ کہتی ہیں کہ ‘اگر کوئی مجھے یہ بھی کہہ دے کہ انھیں نہیں پتہ کہ کیسے بات کی جائے تو میں اُن کی مدد کرنے کو تیار ہوں۔ ہو سکتا ہے کبھی میں کہوں کہ میں نے اس بارے میں بات ہی نہیں کرنی۔‘